Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی یا1980ء کا بیروت....


یادش بخیر!سابق چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری نے21ستمبر2013ء کو کراچی بد امنی کیس کی سماعت کے دوران کہا تھاکہ’ کتنی تشویشناک بات ہے کہ شہر کی دکانوں سے لانچر اور اینٹی ایئر کرافٹ گن مل رہی ہیں ، سب کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں،حکومتی اقدامات قابل ستائش ہیں۔ اسرائیل، نیٹو ، امریکا اور بھارت کا اسلحہ آرہا ہے ، غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی کے لئے کرفیو بھی لگایا جاسکتاہے‘۔

 جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیے تھے کہ ’یہاں اسلحہ کرائے پر مل رہا ہے، ہمارے زمانے میں تو سائیکل کرائے پر ملتی تھی‘۔ یاد رہے کہ 2011ء میں بھی سابق چیف جسٹس نے انتباہ کیاتھا کہ ’کراچی ’مِنی پاکستان‘ ہے اور اس شہر کو اگر آج کنٹرول نہیں کریں گے تو کبھی کنٹرول نہیں ہو گا‘‘۔ اسی تناظر میں فروری 2013 ء کوسپریم کورٹ نے حکومت سندھ سے کہا تھا کہ وہ اس عنوان کا اشتہار دے کہ’’شہری اپنی ذمہ داری پر گھروں سے نکلیں، 22 ہزار ملزم آزاد گھوم رہے ہیں، بد امنی کے باعث کراچی میں شفاف انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے، سیاسی مصلحتوں کے باعث حکومت قانون سازی نہیں کر رہی ، اس نے طے کر لیا کہ قاتلوں اور لٹیروں کو نہیں پکڑنا، عوام کا اداروں پر اعتماد ختم ہو گیا‘‘۔

 یہ کس قدر شرمناک اور افسوسناک بات ہے کہ عدالت عظمیٰ شہریوں کو یہ ہدایت کرنے پر مجبور ہوئی کہ وہ اپنے بچوں کو امام ضامن باندھ کر باہر بھیجا کریں۔ 2011ء میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے دوران کراچی کے18سو شہریوں کو لقمۂ اجل بنناپڑا تھا۔ پچھلی حکومت کے پانچ برس میں جتنے شہری’’ ٹرائیکا‘‘کی شہر پر قبضہ کرنے اور دھاک بٹھانے کی جنگ میں فنا کے گھاٹ اتارے گئے اتنے شہری ایسٹ تیمور اور جنوبی سوڈان کی ’آزادی کی جنگ‘ میں بھی ہلاک نہیں ہوئے۔

زرداری حکومت کے پانچ سالوں میں صرف کراچی شہر میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے دوران جاں بحق ہونے والے عام شہریوں کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق کسی بھی طور پانچ ہزار سے کم نہیں۔ ان شہریوں میں سے کسی کا ایک قاتل بھی آج تک گرفتار نہیں ہو سکا۔ سندھ میں دہشت گردوں کی دہشت کا عالم یہ ہے کہ اگر جرأت و ہمت سے کام لیتے ہوئے اُن کے خلاف کسی تھانے میں کوئی نامزد پرچہ کرا بھی دیا جائے تو چند ہی ماہ میں پولیس کے تفتیشی افسران، گواہوں اور مدعیوں کے لرزہ خیز قتل کی خبریں بتدریج سامنے آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ میں مارے جانے والے عام شہریوں کے ورثاء کی اکثریت ایف آئی آر درج کرانے اور گواہی دینے سے ڈرتی ہے۔جب یہ صورت ہو تو حکومت از خود حق حکمرانی کھو دیتی ہے۔ 

سپریم کورٹ کی آبزرویشن کہ’ کراچی میں آپریشن کلین اَپ کے سوا چارہ نہیں‘ محض ایک آبزرویشن نہیں بلکہ 18 کروڑ پاکستانیوں کے محسوسات، جذبات اور خیالات کی عکاسی ہے۔ کسی وجود میں اگر چھوٹا موٹا کوئی زخم ہو تو مرہم اور پھا ہا اس کا سامانِ اندمال ہو سکتے ہیں لیکن جب یہ زخم ناسور بن جائے تو پھر اس کے لیے یقیناًکیمیوتھراپی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔کراچی کے تیزی سے بگڑتے حالات پر ہر محب وطن شہری مضطرب ہے۔ وہ اصلاح احوال چاہتا ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کراچی کے شہری1980ء کے بیروت کے شہریوں سے بھی بدتر صورت حال سے دو چار ہیں۔

یہاں اس امر کا ذکر ناگزیر ہے کہ غیر قانونی اسلحے اور ریونیو چوری ہونے سے متعلق سپریم کورٹ کے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ رمضان بھٹی نے اپنی رپورٹ میں تحریری طور پر عدالت کو بتایا تھاکہ ’میری ٹائم اور کسٹم کا دعویٰ ہے کہ اس بات کے امکانات ہیں کہ ہمسایہ ملک سے اسلحہ گہرے سمندر سے لایا جاتا ہے اور وہاں سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے ساحلی علاقے تک لایا جاسکتا ہے ،کسٹم کلکٹریٹ کے پاس تیز رفتار بوٹس بھی نہیں ہیں کہ وہ ایک ہزار کلومیٹر ساحلی علاقے کی نگرانی کرسکیں‘۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ’ساحلی پٹی پر 39 مقامات ہیں جہاں پر لا نچیں آسانی سے لوڈ کی جاسکتی ہیں اور سامان اتارا جاسکتا ہے تاہم ان میں سے صرف 7 مقامات پر کسٹم کا عملہ تعینات ہے جبکہ 32 مقامات پر میری ٹائم اور کوسٹ گارڈ کا چیکنگ کا کوئی نظام نہیں ہے‘۔

ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ جہاں وزیرستان اورقبائلی علاقوں کے شدت پسند اور علیحدگی پسند ملکی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہیں، وہاں بلوچستان اورکراچی کے عسکریت پسند بھی ناقابل معافی ہیں۔ کراچی کے حالات سے بھی چشم پوشی نہ کی جائے، پاکستان کے اس اقتصادی دارالحکومت میں دہشت گردی کا جو عفریت مافیاز کی شکل میں پھنکار رہا ہے، اس کا قلع قمع کرنا بھی مقتضیات وقت میں سے ہے۔ کون نہیں جانتا کہ عالمی، علاقائی اور قومی سطح پر کراچی شہر کا تشخص پاکستان کے اقتصادی دارالحکومت کاہے۔ سیکولر لسانی اور قوم پرست فاشسٹ مافیا ز نے تخریب کاری، دہشت گردی اور قتل و غارت کی بہیمانہ وارداتوں کے ذریعے اس پُر وقار تشخص کو اس حد تک مسخ کر دیا ہے کہ عالمی سرمایہ کار تو کجا امن و امان کی مخدوش صورت حال کے باعث مقامی سرمایہ کار بھی سرمائے سمیت یہاں سے پرواز کر رہا ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ شہر قائدمختلف مافیاز کے نرغے میں ہے۔ شہر قائد کو مافیاز کے محاصرے سے نجات دلانے کے لیے کراچی کی مؤثر اور با رسوخ جماعتوں کو ٹھوس، مثبت اور عملی کردار ادا کرنا ہو گا۔کراچی میں ہر روز 125 کروڑ سے 150 کروڑ تک کی رقم بھتہ خور مافیا کو شہری اور کاروباری حضرات ’’دان‘‘ کرنے پر مجبور ہیں۔ شہری اس حد تک خوفزدہ ہیں کہ وہ بھتہ خوروں کے نام بھی ہونٹوں پر لانے سے گھبراتے ہیں۔

 سچ تو یہ ہے کہ بھتہ خور مافیا کی دہشت گردی کے سامنے طالبان کی دہشت گردی بھی ماند پڑ گئی ہے۔ اس پر بعض حلقوں کا یہ تجزیہ لائق توجہ ہے کہ ٹارگٹ کلر اور بھتہ خور مافیا کی دہشت گردی کو اس لیے برداشت کیا جا رہا ہے کہ اس کے مرتکبین علانیہ سیکولر ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔ تو کیا سیکولر دہشت گردی ایک قابل قبول عمل ہے۔ حکومت کی جوائنٹ انوسٹی گیشن رپورٹ میں جن چار جماعتوں اور فشاری گروہوں کی نشاندہی کی گئی تھی، اُن میں سے کسی ایک کے خلاف اب تک حکومتی سطح پر کوئی مؤثر اور نتیجہ خیز کارروائی نہیں کی جا سکی۔ جن ارباب حکومت کی ذمہ داری یہ کارروائی کرنا ہے ، وہ اپنے اقتدار اور حکومت کا طرۂ امتیاز مفاہمت کی پالیسی اور مفاہمت کی سیاست کو قرار دیتے ہیں۔ مفاہمت کی سیاست کا مطلب اگر شہریوں کو مختلف انسانیت دشمن مافیاز کا چارا بناکر اُن کی زندگیوں کو عذاب مسلسل سے دو چار کرنا ہے تو عوامی رائے یہ ہے کہ ایسی مفاہمت کی سیاست سے توبہ ہی بھلی۔

گزشتہ کئی برسوں سے یہ معمول ہے کہ کراچی میں ہر سال تقریباً60دن ہنگاموں، مظاہروں، جلسوں، جلوسوں، ہڑتالوں ، دہشت گردانہ و تخریب کارانہ کارروائیوں کی وجہ سے تجارتی مراکز اور صنعتی ادارے بند رہتے ہیں۔ اگر یہ مراکز اور ادارے ایک دن بند رہیں تو تقریباًصنعت کاروں ، دکانداروں اور تاجروں کو 10ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے جبکہ 30لاکھ کے قریب مزدور اور دیہاڑی دار محنت کش بیکاراور بے روزگار ہو جاتے ہیں۔ ایک دن کی ہڑتال سے FBRکو دو ارب روپے کے محصولات سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ 

یوں گویا ہر سال کاروباری طبقہ کو 6 سو ارب روپے اور FBR کو ایک کھرب 20ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔متحدہ کے قائد کراچی کے شہریوں کے بوجوہ پاپولر لیڈر ہیں اور صوبائی اور قومی اسمبلی کی اکثر نشستوں پر عام انتخابات میں ان کی جماعت کے نامزد امیدوار ہی ٹھپہ شاہی کی بدولت کامیاب ہوتے ہیں۔ ایم کیو ایم ہر دور میں وفاق اور صوبے میں حکمران جماعت کے اتحادی کی حیثیت سے جملہ مراعات و سہولیات کے حصول کے ساتھ ساتھ مختلف وزارتوں کے قلمدان بھی ہتھیالیتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ تقریباً12برس سے سندھ کی گورنری بھی متحدہ ہی کے پاس ہے۔ 

گویا وفاق اور سندھ میں متحدہ ہی حکومت میں رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے میں زرداری دور میں متحدہ کے قائد یہ مطالبہ کس سے کر رہے تھے کہ ’سندھ حکومت دہشت گردی کے واقعات کو کنٹرول کرے‘۔حقیقت یہ ہے کہ اگر متحدہ چاہے اور اس کے وابستگان فعالیت اور تندہی سے کوشش کریں تو کراچی شہر میں 1984ء سے قبل کے دور کی رونقوں کا احیاء کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات زبان زد عام ہے کہ ’’تین الف‘‘ ایسے ہیں کہ اگر وہ چاہیں تو کراچی میں امن کے قیام کی راہیں بآسانی ہموارکی جا سکتی ہیں۔ یہ تین الف استعارہ ہیں، آصف علی زرداری، الطاف حسین اور اسفند یار ایسی مقتدر، معتبر اور بارسوخ شخصیات سے۔ کون نہیں جانتا کہ کراچی میں متحدہ ، پیپلزپارٹی اور اے این پی کا اثر و رسوخ ہے اور یہ تینوں جماعتیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں ایک دوسرے کی اتحادی بھی ر ہیں لیکن ستم ظریفانہ المیہ یہ ہے کہ اکثر بڑے خونریز واقعات کے بعد ایک عرصہ تک یہ تینوں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتی رہیں۔ اس کے باوجود سچ یہ ہے کہ اگر یہ ٹرائیکاعزم صمیم کر لے کہ کراچی کے امن کو بحال رکھناہے تو شہر قائد میں تجارتی، شہری، کاروباری، تفریحی، علمی، ادبی اور ثقافتی گہما گہمیوں اور سرگرمیوں کی گل شدہ شمعوں کو اجالنا ہو گا۔

حافظ شفیق الرحمن

Post a Comment

0 Comments