Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی کے مقتل میں...

قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا مگر اصل میں کراچی شہر ملک کی اقتصادی شہہ رگ بنتا چلا گیا، ایوب خاں یہاں سے دارالحکومت اٹھا کر تو اسلام آباد لے گیا مگر کراچی ہمارا معاشی، مالیاتی اور اقتصادی دارالحکومت بنا رہا۔یہیں ہمارا سٹیٹ بنک ہے، بین الاقوامی بندر گاہ ہے، عالمی فضائی راستوں پر واقع ایئر پورٹ بھی ہے، اور بحری دفاع کا نازک مقام بھی۔یہ بھی اقتصادی مفاد کی حفاظت کے لئے ہے کیونکہ کراچی کی بحری ناکہ بندی پاکستان کو خدا نخواستہ چند روز میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتی ہے۔

یہی کراچی ہماری تہذیب و ثقافت کا نشان بھی تھا، علم و فن کا مرکز بھی۔یہ روشنیوں، رنگوں اور جاگتی راتوں کا شہر تھا۔
شاعروںنے دلی کے نوحے لکھے مگر کراچی کا نوحہ پڑھنے کی توفیق کسی کو نہیں، یہ بھی کسی نے نہیں کہا کہ دلی جوایک شہر تھا ، عالم میں انتخاب ،ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے۔

جنرل ضیاالحق کے دور میں جیسے کراچی کو نظر لگ گئی، اس کی روشنیاں گل ہوتی چلی گئیں۔رنگ و نور کا عالم گہنا گیا۔یہ شہر مرگھٹ بنتا چلا گیا، اب جو کوئی اس شہر میں بستا ہے، یہ اس کی جرات رندانہ کے مترادف ہے۔موت سے نباہ کرنامشکل ہے مگر پھر بھی لوگ وہاں آباد ہیں ، انہیں بربادہونے کا ڈر کیوںنہیں۔
گزشتہ روز وزیر اعظم اس شہر میں تھے۔آئین کی رو سے امن و امان کا مسئلہ صوبائی درد سر ہے مگر کوئی اختیار ایسا ہوگا جسے وزیر اعظم نے استعمال کیا ہوگا۔ شاید یہی اختیار کافی ہے کہ وہ اس ملک کے وزیر اعظم ہیں۔انہوں نے آرمی چیف کو بھی طلب کر لیا۔اور ایک ایسااجلاس ہوا جس میں آصف علی زرداری بھی شریک ہوئے۔

 لگتا تو یہی ہے کہ یہ سب ماورائے آئین ہے مگر وہ جو کہا گیا کہ غیر معمولی حالات ،غیر معمولی فیصلوں کے متقاضی ہیں، یہ ایک غیر معمولی اجلاس تھا۔کسی روز ایسا ہی ایک غیر معمولی اجلاس پنجاب اور پھر خیبر پی کے اور پھر بلوچستان میں بلایا جائے، پنجاب کے اجلاس میںمحمد سرور کو شریک کیا جائے، پشاور کے اجلاس میں عمران خان کو بٹھایا جائے ا ور بلوچستان میں جو بھی اسٹیک ہولڈرز ہیں ، ان سے مشاورت کی جائے، میںنے جب یہ کہا تھا کہ ایپکس کمیٹیوںمیں عوام کو نمائندگی دی جائے تو اس کا مطلب یہی تھا۔ہر اسٹیک ہولڈر کو پتہ ہونا چاہئے کہ کیا ہونے جارہا ہے، اب تو کوئی شخص کہہ دیتا ہے کہ اسکولوں ،کالجوں کی دیواریں اونچی کر لو، ان پر خاردار تاریں لگا دو، گیٹ پر مورچہ تعمیر کرو، اور ایساہو جاتا ہے مگر کل کو کسی حاکم نے یہ کہہ دیا کہ سب گھروں ، دکانوں ، دفتروںاور فیکٹریوں کی دیوارو ں کو اونچا کر دو، ان پر خاردارتاریں لگا دو اور دروازوں پر مورچے تعمیر کرو تو اتنی ڈھیر ساری اینٹیں کہاں سے آئیں گی، اتنا سیمنٹ کہاں سے ملے گا اورلوہے کی تاریں نصب کرنے کے لئے چنیوٹ کی کانوں کی کھدائی کا انتظار کرنا پڑے گا۔

 ایسافیصلہ کرنے والی ایپکس کمیٹی میں اگر عام آدمی بیٹھاہوگا تو اس کا مشورہ یہ ہو گا کہ بھلے مانسو ،پوری ملک کی سرحد پر زمین سے فلک تک کوئی دیوار کیوں کھڑی نہیں کر لیتے۔ چین کے صدر نے اپنے ملک کے ایک شہر کو بچانے کے لئے اپنی پوری سرحد پر ایسی ہی دیوار کھڑی کرنے کا حکم دیا ہے۔

 بھارت نے پہلے ہی اپنی سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے آ ہنی دیوار نصب کر رکھی ہے اور اب جہاں کہیں کوئی دروازہ ہے جیسے واہگہ بارڈر اور میرے گاﺅں کے قریب حسینی والہ بارڈر ، تو وہاں بم پروف شیشے کے دروازے لگانے کا فیصلہ ہوا ہے، بھارت یہ کر گزرے گا، ہم نے اپنی سرحدیں کھلی کیوں چھوڑی ہیں، صرف اسلئے کہ ہر ملک ، ملک ماست۔ ہمارا بارڈر مادر پدر آزاد ہے، پوری دنیا میں جغرافیائی ریاستوں کی سرحد کو تقدس کا درجہ حاصل ہے، یورپ میں اگر سرحدیں مٹ گئی ہیں تو وہاں اس موت کا بسیرا نہیں جو جان نکالنے سے پہلے ہمارے بچوں کی کھوپڑیوں کو نشانہ بناتی ہے۔

ہم کبھی پشاور کا علاج کرتے ہیں ، اب کراچی کا رخ کر لیا ہے، پہلے ہم فاٹا میں الجھے رہے، مگر ہمارا دشمن ہماری رینج سے باہر ہے، وہ سرحد پار ہے، جب چاہتا ہے اپنی جنگ ہماری سرحدوں کے اندر دھکیل دیتا ہے اور جب چاہے سرحد پار پناہ گاہوں میں جا چھپتا ہے۔اسی کیفیت پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ محمد سعید نے رمضان کی ایک افطاری میں تجویز پیش کی تھی کہ ہمیں یہ جنگ واپس دشمن کی سرزمین میں دھکیل دینی چاہیئے۔ مگر ان کی بات کسی نے سنی نہیں اور ہم اپنے ہی ملک کو میدان جنگ بنا کر بیٹھ گئے ہیں۔ کیا ہو گا اگر کراچی میں بھی مارا ماری شروع ہو جائے۔وہی جو فاٹا میں ہوا، دشمن ہماری آستین سے کھسک کر اپنے بیرونی مورچوں میں دبک جائے گا۔

کراچی میں مجرم کون ہے، اس کا کوئی نام نہیں، جو مارتا ہے ، جو لوٹتا ہے۔اس کا کوئی دوسرا نام کیا ہو سکتا ہے،مارنے والے کو ہر ملک میں قاتل اور لوٹنے والے کو ہر قانون کے تحت لٹیرا، ڈاکو، چور کہا جاتا ہے، اس کا کوئی نام ہو، کوئی رنگ ہو ، کوئی نسل ہو، کوئی بھی پہچان ہو، وہ قاتل اور لٹیرا ہی کہلائے گا۔فرعون نے بچوں کو مارا تھا ، ہم بھی اپنے بچوں کو مارنے والوں کو فرعون کہیں گے، نمرود نے ایک ا نسان کو آگ میں پھینکا تھا، ہم بھی زندہ جلانے والوں کو نمرود کا نام دیںگے۔ہلاکو ، چنگیز اور ہٹلر نے ہلاکت کا کھیل کھیلا تھا، آج جو بھی انسانوں کو ہلاک کر رہاہے، ہم اسے ہلاکو ، چنگیز اورہٹلر کا نام ہی دیتے ہیں۔

ہماری سلامتی کی جنگ پورے ملک میں پھیل رہی ہے۔اور جنگ لڑنے کی ذمے داری ہم نے فوج پر ڈال دی ہے، عدلیہ کا بوجھ بھی فوجی عدالتوں پر انڈیل دیا ہے۔تو ہمارے باقی ادارے کس مرض کی دوا ہیں۔ان پر کھربوں کا بجٹ خرچ کیا جا رہا ہے، وہ کس کام کا۔لاہور میں کسی ایس ایس پی کی رہائش گا ہ دیکھیں،کسی تحصیل میں اسسٹنٹ کمشنر کا گھر دیکھیں، گورنر ہاﺅس کی طرح عالی شان مگر کارکر دگی بھی تو عالی شان ہونی چاہیئے۔ورنہ گورنر سرور کی طرح سبھی استعفے دیں اور گھر کی روکھی سوکھی پر گزارا کریں۔

کل کو اگر فوج کم پڑجائے اور اس کی معانت کے لئے البدر اور الشمس کھڑی کرنی پڑے تو یہ فیصلہ پہلے ہو جائے کہ جب البدر اور الشمس کی قیادت کو مستقبل میں کوئی پھانسی دے گا تو کیا اس کے لئے کوئی آواز اٹھانے والا بھی ہو گا۔

اسد اللہ غالب

Post a Comment

0 Comments