Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی بنےگا استنبول

ترکی کا سب سے بڑا شہر استنبول آبادی کے اعتبار سے پانچ بڑے عالمی شہروں میں شمار ہوتا ہے اور ترکی کی معیشت میں اکیلے استنبول کا پیداواری حصہ 30 فیصد ہے ۔ قومی خزانے کو 60 فیصد ٹیکس استنبول سے حاصل ہوتا ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی بھی آبادی کے اعتبار سے پانچ بڑے عالمی شہروں میں شمار ہوتا ہے اور پاکستان کی معیشت میں اکیلے کراچی کا پیداواری حصہ قریباً ایک چوتھائی ہے۔ قومی خزانے کو 50 فیصد ٹیکس آمدنی کراچی سے ہی حاصل ہوتی ہے۔
سنہ 1977 تک کراچی کم و بیش ویسا ہی تھا جیسا آج استنبول ہے اور سنہ 1977 میں استنبول ویسا ہی تھا جیسا آج کراچی ہے۔ روزانہ اوسطاً دس سیاسی قتل ہوتے تھے۔ دائیں اور بائیں بازو کی مسلح تنظیموں کے تصادم میں پانچ برس کے دوران پانچ ہزار سے زائد افراد ہلاک اور لگ بھگ 25 ہزار زخمی ہوئے۔ سنہ 1980 میں مارشل لا لگا تب جا کے سیاسی تشدد پر قابو پایا جا سکا۔

موجودہ صدر رجب طیب اردوغان استنبولی ہیں ۔ نوے کے عشرے میں استنبول کے مئیر بنے اور اپنے شہر کو ترقی کا شو کیس بنا دیا اور پھر اس شو کیس کو قومی انتخابات میں ووٹروں کے پاس لے گئے اور وعدہ کیا کہ ترکی کو بھی ایسا ہی بنا دیں گے۔ ووٹروں نے ان پر اعتبار کیا اور اب تک کر رہے ہیں۔
اس وقت بلدیہ استنبول کا سالانہ بجٹ 14 ارب ڈالر ہے۔ بجٹ کا 75 فیصد انفراسٹرکچر کی تعمیر و بہتری، پانی کی فراہمی، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے لیے مختص ہے۔ آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ سیاح ہیں۔ اس سال اب تک ایک کروڑ سے زائد سیاح استنبول آئے ہیں۔
 استنبول کی اپنی دو ہزار سالہ تاریخ بھی سیاحوں کو بے طرح کھینچتی ہے مگر استنبول میں سکیورٹی کے انتظامات بہت اچھے ہیں اور فائیو سٹار سے تھری اسٹار تک کے ساڑھے آٹھ سو معیاری ہوٹل موجود ہیں اور مزید تعمیر ہو رہے ہیں۔

مقامی حکومت آمدنی کا اہم ذریعہ بننے والے تاریخی و ثقافتی ورثے کی اچھے سے دیکھ بھال کرتی ہے۔ سلیمانیہ مسجد اور نیلی مسجد میں نماز کے بعد الوہی سکون میں داخل ہونے کے لیے کسی چوڑے سنگی ستون سے ٹیک لگا کے آنکھیں بند کرنا کافی ہے ۔ٹوپ کاپی اور اسلامک آرٹ میوزیم میں احتیاط سے رکھے شاندار ماضی سے آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔

استنبول آزادی کا دوسرا نام ہے۔ آبنائے مارمرا کی شفاف لہریں گنتے گنتے پرنسس آئی لینڈ پہنچ کے پچاس اقسام کی مچھلی کھائیں یا استقلال اسٹریٹ پر لذیز مقامی کھانوں کے صاف ستھرے ریستورانوں پر ٹوٹ پڑیں۔
مصوری کے شاہکار دیکھنے ہوں تو چار عظیم الشان آرٹ میوزیم حاضر ہیں۔گرمیوں میں جائیں تو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول اور جاز فیسٹیول میں گم ہوجائیں۔ کسی بھی مقامی اخبار میں کسی مقبول تھیٹر شو کا وقت پڑھ لیں یا کسی بھی ٹیکسی والے سے کسی بھی ایسی جگہ کا پتہ پوچھ لیں جہاں شام سکون سے گزر سکے۔
جی چاہے تو بیگلو ڈسٹرکٹ کے کسی نائٹ کلب میں چسکی لگاتے ہوئے بھانت بھانت کی تھرکن دیکھ لیں یا معیاری بیلی ڈانس سمجھنا ہو تو تکسیم سکوائر میں سلطانہ کلب تک پیدل پیدل چلے جائیں ورنہ اتاترک کلچرل سینٹر کے سٹیٹ اوپرا یا سمفنی آرکسٹرا کا ٹکٹ لے لیں ۔ جیب میں پیسے کم ہوں تو فٹ پاتھ پر نصب بنچ پر بیٹھ کے سٹریٹ سنگرز کو ہی داد دے دیں۔
مقامی حکومت آمدنی کا اہم ذریعہ بننے والے تاریخی و ثقافتی ورثے کی اچھے سے دیکھ بھال کرتی ہے

تھکن محسوس کریں تو گرم گرم ٹرکش باتھ کے لیے پانچ سو برس پرانے سلیمانیہ حمام میں جا گھسیں اور خوشبو دار جڑی بوٹیوں سے مالش کروا کے ہلکی سے جھپکی لینے کے بعد بازو میں واقع گرینڈ بازار کی ٹائم مشین میں داخل ہو کر ایک ہزار برس پیچھے پہنچ جائیں۔ نیند آنے لگے تو زیرِ زمین میٹرو ، ٹرام  بس یا میٹر والی ٹیکسی پکڑ کے گھر کا راستہ لیں۔

امیرِ جماعتِ اسلامی پاکستان سراج الحق نے کراچی میں اٹھارہ اکتوبر کو ایک اجتماع سے اور پھر 28 نومبر کو عمران خان کے ساتھ ایک مشترکہ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اہلیانِ کراچی سے وعدہ کیا ہے کہ ہمیں بلدیاتی انتخابات میں کامیاب کروائیں تو کراچی کو استنبول کی طرح پرامن اور خوبصورت بنا دیں گے۔
کوئی کہہ رہا تھا سراج الحق صاحب نے استنبول نہیں دیکھا۔ مگر ہمیں یقین ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ اتنا بڑا رہنما بھلا استنبول میں گھومے بغیر ایسا وعدہ کیسے کر سکتا ہے؟

میں تین بار استنبول جا چکا ہوں اور چوتھی بار کراچی کو ہی استنبول دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس واسطے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس بار جماعتِ اسلامی کو ووٹ دوں گا کیونکہ سراج الحق صاحب کی طرح میں بھی بہت عاشق ہوں زندہ دل استنبول کا۔

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

Post a Comment

0 Comments