Ticker

6/recent/ticker-posts

سفر بھٹ شاہ کا

 کراچی سے 208 کلومیڑ کی مسافت پر واقع بھٹ شاہ موجود ہے، جہاں لوگ روحانی فیض پانے کے لئے شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مزار پر دیوانہ وار آتے ہیں، لوگوں کا یہی اشتیاق دیکھ کر ایک دن ہم 50 افراد پر مشتمل گروپ نے بھی بھٹ شاہ جانے کا ارادہ کیا اور اپنا سفر شروع کردیا۔ ہمارے ایک قریبی دوست طلحہ غوری اس طرح کے مختلف معلوماتی ٹرپ کا اہتمام کرتے رہتے ہیں اور ان کے ٹرپ کی خاص بات یہ ہے کہ ٹرپ میں موجود تمام افراد ہی فوٹو گرافر ہوا کرتے ہیں، تو ہم بھی اپنے دوست کشف بھائی اور اپنے کیمرے کے بیگ کے ساتھ اس ٹرپ میں شامل ہوگئے۔

ہم نے اپنا سفر کراچی سے صبح 8 بجے شروع کیا، سپر ہائی وے پر ناشتہ کرنے بعد تقریباً 12 بجے دن ہالا شہر پہنچ گئے۔ اس شہر کی خاص بات یہ ہے کہ پاکستان کی ثقافت کو دنیا بھر میں روشناس کرانے والے کمہاروں کی ایک بڑی تعداد یہاں موجود ہے، ہاتھ سے بنے مٹی کے برتن یہاں کے ماہر کاریگروں کی محنت کامنہ بولتا ثبوت ہیں۔ شہر میں موجود کئی کارخانوں کا ہم نے معائنہ کیا اور وہاں موجود ماہر کاریگروں کی مہارت کے جوہر براہِ راست دیکھے۔ اتنے سارے فوٹو گرافرز کو ایک ساتھ دیکھ کر وہاں موجود افراد نے خصوصی تعاون بھی کیا، مٹی کے برتنوں کو ہمارے سامنے بنا کر بھی دکھایا۔
اس تمام تر صورت حال کو دیکھ کر سوچ کا محور بلند ہوا کہ اس جدید دور جہاں ہر چیز بشمول انسان مشینوں پر منحصر کرتا ہے وہاں اب بھی ہاتھ کی مہارت کا کام بڑے زور شور سے جاری ہے لیکن یہ دیکھ کر بہت افسوس بھی ہوتا ہے کہ دلکش فن پارے، بنانے والے کاریگر نہایت کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ہمارے کام کو خریدنے والے بہت کم نظر آتے ہیں اگر ایسا ہی چلتا رہا تو وہ وقت دور نہیں جب کمہار کے اس کام کو کتابوں میں ہی پڑھا جائے گا۔ ایسا دن آئے اِس سے پہلے ہی محکمہ ثقافت کو ان افراد کے لئے خصوصی انتظام کرنا ہوگا تا کہ اس قدیم فن کو بچایا جاسکے.

کچھ وقت گذارنے کے بعد ہم شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مزار کی طرف روانہ ہوگئے مزار کے پاس پہنچ کر احساس ہوا کہ مزار سے ہزاروں افراد کا روزگار بھی جڑا ہوا ہے۔ مزار جانے کے لئے گلی کے اندر پنہچے تو رنگین دکانیں جن پر مختلف قسم کی مٹھائیاں، چادریں، پھول پتیاں نہایت ہی سلیقے سے سجا رکھی گئی تھی اور دکانوں پر موجود ہر فرد کی یہ کوشش تھی کہ گلی میں اندر آنے والا ہر فرد ان کی دوکان سے ہی خریداری کرے۔ ہر ایک اپنی بنائی ہوئی اشیاء کی تعریف کے پُل باندھ رہا تھا۔ خیر ان سے بچتے بچاتے ہم مزار کے مرکزی دروازے تک پہنچ گئے۔ گلی کے شروع سے مزار کے احاطے تک سیکڑوں گدا گروں کو ہم نے دیکھا جو سائیں کا صدقہ لینے کے لئے گوشہ نشیں تھے۔
شاہ عبدالطیف بھٹائی سنہ 1690ء میں موجودہ ضلع حیدرآباد کے تعلق ہالا میں پیدا ہوئے۔ آپ نے 63 برس کی عمر پائی اور 1752ء میں وفات پاگئے، آپ ایک صوفی بزرگ ہیں، آپ نے اپنی شاعری میں معرفت الہیٰ، اسلامی رواداری اور اخلاق پر زور دیا، شاہ عبدالطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں ماہی گیروں، لوہاروں، چرواہوں، کسانوں، سنیاسوں کا خصوصی ذکر کیا، آپ نے سندھی زبان، ادب، ثقافت، رومانوی داستانوں اور ثقافتی پہلوؤں کو اسلامی سانچہ میں بڑی خوبصورتی سے ڈھالا۔ آپ کی شاعری اور افسانے اتنے پُر اسرار تھے کہ لوگ جوق در جوق آپ کے عقیدت مندوں میں شامل ہونے لگے اور یہ سلسلہ سالہا سال سے ابھی تک جاری ہے۔

مزار کے اندر مختلف مقبروں پر نہایت ہی خوبصورت نقش و نگار کنندہ ہیں، شاہ عبدالطیف بھٹائی کے مزار کے احاطے میں آپ کا کلام پڑھا جاتا ہے جو کہ صبح سے لیکر رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ ایک مخصوص انداز کی دھیمی سی موسیقی اور مخصوص انداز کا راگ فرد کو اپنی طرف کھینچتا چلا جاتا ہے۔ یہ راگ گانے والوں کا وقت متعین ہے، یہ تمام تر راگ شاہ عبدالطیف بھٹائی کی داستانوں میں سے ہوتا ہے جسے سُر کا نام دیا گیا ہے۔ آپ کے کام کو دو نام دئیے گئے ہیں، سر سارنگ اور سر سہنی اور ان کو گانے کا وقت مختص ہے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام روحانی فیض ہے۔ انہوں نے وحدانیت، انسانی ذات کے لئے محبت کا پیغام، اور درگذر کرنے پر زور دیا ہے۔ آپ کی شاعری اور افسانے بڑی بڑی جامعات میں بطورِ مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں۔

نعمان لودھی

Post a Comment

0 Comments