Ticker

6/recent/ticker-posts

کیا شہر کراچی واقعی پُر امن ہو چکا ہے ؟

کراچی جو تقریباً 3 کروڑ آبادی پر محیط شہر ہے اور دنیا کے کئی ممالک سے زیادہ آبادی کا حامل ہے، یہ فقط پاکستان کا سب سے بڑا شہر نہیں بلکہ دنیا کے کئی گنجان آباد شہروں میں سے ایک ہے۔ صوبہ سندھ کی کم و بیش نصف آبادی کراچی میں ہی آباد ہے۔ یہ شہر کئی سو سال کی تاریخ رکھتا ہے اور اِس کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ ایک تجارتی شہر ہے۔ اِس کی یہی خاصیت اِس کو کئی دیگر شہروں سے ممتاز بنا دیتی ہے۔ کراچی امراء کے درمیان تو عروس البلاد کے نام سے جانا جاتا ہے البتہ متوسط طبقے میں یہ ایک غریب پرور شہر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہ تو ہو گیا کراچی کا انتہائی مختصر سا تعارف، اب چلتے ہیں اصل موضوع یعنی امن کی جانب۔ میں جب بھی اپنے دوستوں سے ملتا ہوں تو اُن سے حال احوال ضرور پوچھتا ہوں۔ میرے اکثر دوست اپنا کاروبار چلا رہے ہیں اور اُن کی شہر کے حالات پر کافی گہری نظر ہوتی ہے۔ میرا دوسرا حلقہ احباب سماجی کارکنان پر مبنی ہے اور وہ مسائل جو ایک بزنس مین کو نظر نہیں آتے وہ انہیں نظر آ جاتے ہیں۔
ایک بات جو ہم تواتر سے سنتے ہیں کہ ’کراچی پُرامن ہو چکا ہے‘ میرے نزدیک یہ بات کچھ ناقابل قبول ہے۔ آپ چاہیں تو مجھے خیرہ چشم کہہ سکتے ہیں لیکن میں اپنے دلائل ضرور پیش کروں گا، باقی آپ کی مرضی ہے۔ مثال پیش کئے دیتا ہوں میرے ایک بہت ہی عزیز دوست جناب ناصر زیدی جو میری ہی طرح ایک سماجی کارکن ہیں اور درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہیں کہتے ہیں کہ،
کراچی اب بہت پُرامن اور پُرسکون ہو چکا ہے۔

میں اِس معصومانہ خیال کو قابل قبول نہیں سمجھتا، کیونکہ یہ ایک سطحی مشاہدہ ہے اور مقتدر حلقے کی منشاء کے عین مطابق ہے۔ دراصل ہمارا شہر کئی چھوٹے چھوٹے اقلیتی علاقوں میں بٹا ہوا ہے، بنیادی حقوق کو ہمارے یہاں بطور آسائش اور اسٹیٹس سمبل کے طور پر برتا جاتا ہے۔ پینے کا صاف پانی تو اب نلکوں میں آتا ہی نہیں ہے، گدلا کہیں کہیں آ جاتا ہے، سڑکیں آپ کو سب سے اچھی فقط ڈیفنس میں ہی ملیں گی، شہر کے باقی اضلاع، قصبے اور رہائشی علاقے صبر کریں اور سب سے آخر میں بجلی، جس کے چور تو پکڑے نہیں جاتے ہیں البتہ پورے پورے علاقوں کو چوری کا طوق پہنا کر وہاں گھنٹوں بجلی معطل رکھی جاتی ہے۔

یہی بنیادی ضروریات کی غیر منصفانہ تقسیم لوگوں کو بے چین اور بے سکون کیے دیتی ہے، اور پھر وہ ریاست سے کئے گئے اپنے عمرانی معاہدے سے صرف نظر کرتے ہوئے، جلاؤ گھیراؤ اور اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچانے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اب بات کرلیتے ہیں امن کی کہ یہ ہوتا کیا ہے اور یہ کن عوامل پر مشتمل ہوتا ہے؟ امن کی کچھ بین الاقوامی تشریحات و تعریفات ہیں اور یہ تشریحات و تعریفات تمام دنیا میں من و عن رائج ہیں۔ یہ تشریحات اقوام متحدہ نے ہی رائج کی ہیں اور جیسا کے نام سے ظاہر ہے کہ اقوام متحدہ کا مطلب ہی یہی ہے کہ اِن تشریحات کو اقوام عالم نے مل کر رائج کیا ہے۔ جو پہلی تشریح میں یہاں پیش کرنا چاہوں گا وہ انسانی حقوق سے متعلق ہے، ایک علاقہ، معاشرہ یا خطہ اُسی وقت پُرامن کہلائے گا جب وہاں انسانی حقوق میسر ہوں اور آدھے ادھورے نہیں! مکمل! اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ، اب یہ انسانی حقوق کیا ہوتے ہیں؟ سنہ 1945ء میں اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کا عالمی مسودہ پیش کیا گیا تھا، اِس مسودے میں 30 انسانی حقوق درج تھے۔ دنیا بھر کے تمام ممالک آج اُسی مسودے کی روشنی میں اپنے ممالک کے آئین نافذ کرتے ہیں۔

انسانی حقوق کے عالمی مسودے میں جن حقوق کا ذکر کیا گیا وہ لازم و ملزوم اور ایک دوسرے سے جدا کر کے نافذ العمل نہیں لائے جا سکتے ہیں، ایسا کرنا انسانی حقوق اور اِس مسودے دونوں کی بے حرمتی کے زمرے میں آئے گا۔ میں اِس مسودے کی فقط پہلی اور دوسری شق یہاں درج کیے دیتا ہوں اور جواب آپ کی صوابدید پر چھوڑے دیتا ہوں.

تمام انسان برابر ہیں
انسان کے درمیان رنگ، نسل، زبان، مذہب، فرقے، معاشی حالات کی بناء پر کوئی تفریق نہیں برتی جائے گی۔ اب میں آپ سے ایک سوال پوچھتا ہوں، کیا واقعی ہمارے شہر بلکہ ہمارے ملک میں کہیں بھی اِن حقوق کی پاسداری ہو رہی ہے؟
اب چلتے ہیں انسان کی دوسری تعریف کی جانب۔ یہ تعریف تعلقات عامہ کے پائے کے محقق جوہان گلٹنگ Johan Gultang نے سنہ 1996ء میں پیش کی تھی۔ آپ نے امن کو دو حصوں میں بانٹ دیا تھا، منفی و مثبت۔ منفی امن جنگ و جدل، ظلم و جبر اور تشدد کے عنقا ہونے کا نام ہے اور مثبت امن معاشی و معاشرتی ترقی و انسانی بہبود کا نام ہے۔ ایک بات اور مثبت امن، منفی امن کے رائج ہونے کے بعد ہی نافذ ہوتا ہے۔

کیا واقعی کراچی میں امن کلی طور پر رائج ہوگیا ہے؟ دل کو بہلانے کے لئے تو ہم ایسا ضرور کہہ دیں گے۔ نیز یہ کہ ہر وہ شخص جس پر کراچی کا امن بحال کرنے کی ذمہ داری عائد ہے وہ بھی ایسا ہی کہے گا، لیکن کیا واقعی ایسا ہوچکا ہے؟ مجھے ایسا نہیں لگتا ہے۔ ہاں ہمیں عارضی طور پر اُن مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے جو ہمیں سنہ 2012ء تک درپیش تھے۔ اگر ہم Johan Gultang کی دی گئی تعریف کے بہت قریب ہیں تو ہمیں اقوام متحدہ کی جانب سے مروجہ نظام کی جانب رجوع کرنا ہو گا۔ ایسا کہنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امن و امان کو پورے ملک میں ایک حق کی نہیں بلکہ ایک آسائش کی حیثیت حاصل ہے۔ اگر ملک کا فقط 20 فیصد طبقہ محفوظ علاقوں اور ذاتی محافظوں کے سائے میں زندہ ہے تو یہ کوئی کارنامہ نہ ہوا۔ نیز یہ کہ موجودہ حالات کو ہی بہترین قرار دینا خود کشی کے مترادف ہو گا۔

کراچی کا امن آبادی کے شدید دباؤ، اختیارات کی غیر منصفانہ تقسیم، انتظامیہ کی غیر سنجیدگی اور شہر میں جدید اسلحے کی وافر موجودگی سے برباد ہوا تھا اور ہو رہا ہے۔ کیا واقعی اِن مسائل کا حل کراچی میں نافذ العمل ہے؟ میرے خیال میں نہیں۔ یہاں بس گزارہ ہی ہو رہا ہے اور گزارہ تو جیل میں بند قیدی اور سڑک پر بیٹھے بھکاری کا بھی ہو ہی جاتا ہے۔ ہمیں اپنے اصل مسائل کو سمجھنا ہو گا، صرف یہی نہیں بلکہ اِن کا حل دریافت اور اِن پر باقاعدہ عمل درآمد بھی کرنا ہو گا۔ بلی دیکھ کر اگر کبوتر آنکھیں بند کر لے تو ایسا کرنے سے بلی غائب نہیں ہو جاتی ہے، بلکہ وہ قریب آکر کبوتر کو کھا جاتی ہے۔ ہمیں بھی مسائل کو دیکھ کر آنکھیں بند نہیں کرنا ہوں گی بلکہ ان کا تدارک کرنا ہو گا۔

بلال منصور

 

Post a Comment

0 Comments