کراچی دنیا کا چھٹا بڑا شہر گونا گوں مسائل میں گھرا ہوا نظر آتا ہے جس میں اکثر مسائل خود پیدا کردہ ہیں جن کی بنیادی وجہ کرپشن، نااہلی اور ناانصافی ہے یہاں کے بیشتر مسائل گڈگورننس قائم کر دینے سے خود بخود ختم ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ آیندہ 15 سالوں میں کراچی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا شہر بن جائے گا۔ اگر یہی روش برقرار رکھی گئی تو اس کا کیا حال یا انجام ہو گا یہ تصور ہی بڑا خوفناک ہے۔
اس شہر کے لیے کوئی شہری پلان بنایا گیا ہے نہ ہی کوئی خاص منصوبہ بندی کی گئی۔ ارباب اقتدار اس طرف توجہ سے غافل رہے ہیں۔ شہر میں انصاف، اصول اور قانون نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی۔ ہر قانون شکن، طاقتور اور استحصال پسند آزاد ہے بلکہ اسے ہر قسم کے مواقعے، سہولیات اور تعاون میسر ہے۔ قانون اور امن پسند شہریوں پر عرصہ حیات تنگ ہو چکا ہے۔ شہری شدید قسم کے خوف نفسیاتی دباؤ اور عوارض کا شکار ہیں۔ بہت سے مہلک امراض کی وجہ بھی شہر کا سیاسی، سماجی اور صنعتی ماحول ہے۔ تعلیم اور بھرتیوں کا معیار ختم ہو چکا ہے۔
ان میں کرپشن اور اقربا پروری کے سوا کچھ باقی نہیں رہا۔ عام لوگوں کو ہر محکمے کی ہر آسامی پر بھرتی کے نرخ اور چینل معلوم ہیں وہ مجبور ہیں کہ رشوتیں دے کر یا سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے ملازمتیں حاصل کریں۔ ظلم در ظلم یہ ہے کہ رشوتیں لے کر بھرتی کیے جانے والے افراد کو کئی کئی ماہ تنخواہیں نہیں ملتی ہیں پھر وہ بھوک ہڑتالیں مظاہرے اور ہنگامے کرتے ہیں۔ لیکن ان سے رشوتیں لے کر بھرتی کرنے والے افسران انکوائری میں کرپشن کے مرتکب ثابت ہو جانے اور کروڑوں روپے لے کر غیرقانونی بھرتیاں کرنے کے اعتراف کے باوجود کسی احتسابی عمل سے محفوظ رہتے ہیں ماسوائے کبھی کبھار معطل یا ٹرانسفر کیے جانے کے۔
پانی، بجلی، ٹریفک جام، بھتہ گیری اور رہزنی کی وارداتیں بڑے اور مشترکہ مسائل ہیں جن سے ہر شہری کو ہر وقت سابقہ رہتا ہے چاہے وہ ملازمت میں ہو، کاروبار میں ہو یا گھر میں جس کی وجہ سے سرمایہ، صنعت، ذہن اور مہارتیں اس شہر سے منتقل ہو رہے ہیں۔ شہریوں کو پینے کے پانی جیسی بنیادی نعمت میسر نہیں ہے۔ شہر میں ٹینکر مافیا، لینڈ مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا، ایجوکیشن مافیا، بھتہ مافیا ایک باقاعدہ صنعت کی صورت حال اختیار کر چکی ہیں۔
پولیس اور انتظامیہ کی توجہ اور دلچسپی جرائم اور مسائل کے حل میں تو کم نظر آتی ہے البتہ ڈبل سواری پر پابندی عائد کر دینے، موبائل فون سروسز بند کر دینے، جلسے، جلوسوں، ریلیوں اور دھرنوں کو کنٹرول کی بجائے پٹرول پمپس، مارکیٹیں بند کرا کے شاہراؤں کو بلاک کر کے شہریوں کو ٹریفک جام کے عذاب میں مبتلا کر دینے جیسے اقدامات پر زیادہ نظر آتی ہیں۔
شہریوں کی شکایت عام ہے کہ انتظامیہ ٹرانسپورٹرز کی ملی بھگت سے موٹر سائیکلوں کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کرتی ہے جس سے ان کو لاکھوں روپے روزانہ کی اضافی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ ڈبل سواری پر پابندی کا گاہے بہ گاہے اطلاق 24 اور 48 گھنٹوں کے لیے اس طور پر کیا جاتا ہے کہ عام آدمی اس سے آگاہ ہونے سے قبل ہی لاعلمی میں اس جرم میں دھر لیا جاتا ہے پھر پولیس کو رشوتیں دے کر یا عدالتوں سے ضمانت کروا کے جان خلاصی کراتا ہے۔
شہر میں پانی چور ٹینکر مافیا کو انتظامیہ اور واٹر بورڈ کی آشیرباد حاصل یا یہ ادارے اتنے بے بس ہیں کہ شہریوں کو اس مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو ان اداروں کو ٹینکر اور بل ادا کرنے کے باوجود منہ مانگے داموں پر منت سماجت کے ذریعے ٹینکر مافیا سے پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ ہر علاقے میں گھروں میں پانی کے حصول کے لیے بورنگ کرائی گئی ہے جابجا پانی کے لیے بورنگ کا کام ہوتا نظر آتا ہے۔ جس کی وجہ سے پانی کی زیر زمین سطح کافی نیچے چلی گئی ہے۔ بتدریج پانی کی کم ہوتی سطح کی وجہ سے پرانی بورنگ ناکارہ ہو رہی ہیں اور پانی کے حصول کے لیے ازسرنو 150 فٹ نیچے تک بورنگ کرائی جا رہی ہیں۔
جس پر ایک لاکھ روپے سے زیادہ کا خرچہ آ رہا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے جو کاروبار میں نقصان اٹھا کر صفر پر آ چکے تھے دوستوں کی رائے کے برخلاف بورنگ کی دو مشینیں لے کر قسمت آزمائی کے لیے اس نئے کاروبار میں کود پڑے۔ چھ ماہ بعد ملاقات ہوئی تو اپنی نئی کار کی طرف اشارہ کر کے گویا ہوئے کہ یہ اسی کاروبار کی مرہون منت ہے جس کی آپ لوگ مخالفت کر رہے تھے ان کا کہنا تھا کہ ذاتی تعلقات والوں سے ہی اتنے کام کی ایڈوانس بکنگ ہے کہ کام سے معذرت کرتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے حال ہی میں عدالتی حکم پر کراچی شہر میں قائم 105 غیر قانونی ہائیڈرنٹس مسمار کیے گئے ہیں مزید 52 کو مسمار کر کے عدالت میں رپورٹ پیش کرنے اور آیندہ ان کی تعمیر کو روکنے سے متعلق طریقہ کار بنا کر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
حکومت نے اس سلسلے میں متعلقہ چیف انجینئر کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ اگر دوبارہ ہائیڈرنٹس پمپس تعمیر ہوئے تو انھیں معطل کر دیا جائے گا۔ ان غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے انہدام سے بہت سی آبادیوں کو جہاں ہفتوں ہفتوں پانی نہیں آتا تھا وافر مقدار میں پانی ملنا شروع ہو گیا ہے۔ اس سے قبل ہائیکورٹ کے حکم پر جہانگیر پارک اور دیگر بازاروں کے اطراف میں تجاوزات کا خاتمہ کیا گیا تھا لیکن فوٹو سیشن اور عدالت میں رپورٹ پیش کرنے کے بعد یہ تجاوزات دوبارہ قائم کر دیے گئے تھے۔ کورٹ ناظر کی رپورٹ پر عدالت نے دوبارہ قائم ہونے والے
تجاوزات کو 48 گھنٹوں میں ختم کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے لاپتہ افراد کے حوالے سے سندھ حکومت کے طرز عمل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ حکومت تو بالکل فارغ بیٹھی ہے ان کو کوئی پرواہ نہیں ہے ان کے لا افسران سے جو بات بھی پوچھی جاتی ہے وہ نہیں بتا سکتے۔ عدالت عظمیٰ یہ بھی کہہ چکی ہے کہ اگر حکومت کام نہیں کر سکتی تو کسی اور کے حوالے کر دیں۔
پانی کا مسئلہ ہو یا، تجاوزات کا یا پھر ٹریفک جام، ڈبل سواری پر پابندی، بھتہ گیری جیسے عوامی مسائل، عدالتیں شہریوں کے حقوق کی پامالی پر گاہے بہ گاہے از خود بھی ایکشن لیتی رہتی ہیں اگر ایسا نہ ہو تو صورتحال معلوم نہیں کہاں پہنچے لیکن چند روزہ بہتری کے بعد صورتحال وہی ہو جاتی ہے حالانکہ شہری سہولیات کی فراہمی ان کا تحفظ ان کی منصوبہ بندی حکومتی اداروں کی ذمے داری ہے جس سے وہ بے بہرا نظر آتے ہیں۔ 2006ء سے زیر التوا K-4 منصوبے کے بارے میں اب خبر آئی ہے کہ اس منصوبے کے لیے کنسلٹنٹ کا تقرر کر لیا گیا ہے 260 ملین گیلن پانی کی فراہمی کا یہ منصوبہ اگر مزید التوا کا شکار نہ ہوا تو 3 سال میں مکمل ہو گا جب تک یہ منصوبہ مکمل ہو گا پانی کی قلت اس سے زیادہ بڑھ چکی ہو گی۔
کراچی شہر کے مسائل کے حل اور شہری منصوبہ بندی کے لیے حکومت سندھ کے پاس اہلیت نظر آتی ہے نہ مطلوبہ وسائل۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کو اس صورتحال پر فوری اور خصوصی توجہ دے کر ہنگامی بنیادوں پر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے یہ شہر اور اس کے شہری محفوظ ہو کر یکسوئی سے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
عدنان اشرف ایڈووکیٹ
0 Comments