رات کے کھانے کی میز پر ہر ایک کے پاس سنانے کے لیے ایک کہانی تھی: ٹریفک سگنلز پر گن پوائنٹ پر ڈکیتی، اور چوروں کا گھروں میں گھس آنا، یہ وہ تجربات تھے جو وہ سب شیئر کر رہے تھے۔
یہ ڈیفنس ہاﺅسنگ اتھارٹی کے متمول علاقے کا ایک گھر تھا مگر یہ کہانیاں ایسے علاقوں میں زیادہ خوفناک ہوجاتی ہیں جہاں لوگ سیکیورٹی 'خریدنے' سے قاصر ہیں۔ شہر کے ہر تیسرے شخص کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ اس عذاب سے گزرا ہے اور وہ بھی ایک بار نہیں کئی بار۔
شہر میں خون سستا ہوگیا ہے اور ڈاکوﺅں کے سامنے کسی قسم کی مزاحمت کی قیمت لوگوں کو اپنی زندگیوں کی صورت میں چکانا پڑتی ہے: بحث مت کرو یا احمقانہ جرات سے گریز کرو، یہ وہ عام مشورہ ہے جو شہر میں آنے والے ہر فرد کو دیا جاتا ہے۔ یہ لوگ صحیح بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ قانون کی عملداری ملک کے سب سے بڑے شہر میں مکمل طور پر منہدم ہونے کے مقام پر پہنچ چکی ہے اور پولیس کی جانب رخ کرنا بھی آپ کے لیے بڑی مشکل کا باعث بن سکتا ہے۔
تو کوئی اس لاقانونیت کے ماحول میں کیسے خود کو بچا سکتا ہے؟ ڈکیتیوں اور لوٹ مار کی وارداتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے شہر کے تیزی سے تباہی کی جانب بڑھنے کو واضح کردیا ہے۔ اس زرخیر کاسموپولیٹن شہر میں لوگوں کے پاس بچنے کے اپنے طریقے ہیں کیونکہ یہ شہر اب بھی بے مثال مواقع فراہم کر رہا ہے۔
عوام کے لیے حکومت مکمل طور پر غیر متعلق یا قبضہ گروپ بن چکی ہے جسے نظرانداز کیے جانے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کے پاس دولت ہے تو اپنی سیکیورٹی خود خریدیں اور دیگر خدمات کے لیے رقم ادا کریں۔ اگر آپ اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تو پھر مافیاز اور مقامی سیاسی جماعتوں کی سرپرستی کے متلاشی بن جائیں، مگر یہ بھی آپ کی مکمل سیکیورٹی کی ضمانت نہیں۔
اب بھی یہ شہر ناقابلِ یقین رفتار سے پھیل رہا ہے اور 1998 سے اب تک کراچی کی آبادی کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ اس میں دوگنا اضافہ ہوچکا ہے اور یہاں کے جغرافیے نے شہر کو متعدد معاشی، سماجی اور ثقافتی اعتبار سے مختلف حصوں میں تقسیم کردیا ہے جن کا ایک دوسرے سے بہت کم یا کوئی کنکشن نہیں۔ یقیناً اس تقسیم میں مزید نمایاں اظہار گزشتہ ایک دہائی کے دوران بڑی تعداد میں گھر بار چھوڑ کر یہاں آنے والے افراد کے اثر سے ہوا۔
یہ صرف شمال سے ہونے والی ہجرت نہیں تھی بلکہ بڑی تعداد میں لوگ اندرون سندھ سے بھی یہاں آئے، خاص طور پر آخری دو سیلابوں کے بعد۔ تاہم اس نے شہر کو پگھلتے برتن میں تبدیل نہیں کیا بلکہ اس نے ثقافتی اور معاشی تقسیم کو مزید وسیع کیا، چنانچہ ہفتہ وار تعطیل کے موقع پر کلفٹن کے ساحل پر مختلف سماجی اور مالی حیثیت کے افراد کو اکھٹے دیکھا جاسکتا ہے۔
شہر میں نئے آنے والے بیشتر افراد ایسے علاقوں میں بس گئے ہیں جہاں ریاست کی جانب سے خدمات فراہم نہیں کی جا رہیں اور ان کا انحصار مختلف پاور گروپس پر ہوتا ہے، جس نے شہر کو مختلف سیاسی پیمانوں میں تبدیل کردیا ہے۔ خطے، پاور، کنٹرول یا حقوق کی اس جنگ کے نتیجے میں جرائم پیشہ مسلح گینگز کو بھی ابھرنے کا موقع ملا ہے جنہیں طاقت کے مختلف بلاکس کی سرپرستی حاصل ہے اور اس چیز نے شہر کو تشدد کے کبھی نہ ختم ہونے والے چکر میں دھکیل دیا ہے۔ کاروباری حضرات کی جانب سے بھتے کی رقم صرف ان گینگز کو ہی ادا نہیں کی جاتی بلکہ متعدد قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی نوازا جاتا ہے تاکہ اپنی بقاء کو ممکن بنایا جاسکے۔
ایک بار جب آپ کو اپنے علاقے کے سب سے طاقتور گروپ کے بارے میں معلوم ہوجائے تو کوئی مسئلہ نہیں رہتا کیونکہ وہ آپ کو سیکیورٹی کی یقین دہانی کروا سکتا ہے۔ ایک ممتاز صنعت کار نے مجھے بتایا کہ انہیں بس حکومتی ٹیکسز کا ایک حصہ انہیں ادا کرنا پڑتا ہے۔ مگر صرف یہی کافی نہیں، بلکہ آپ کو وزراء اور حکومتی افسران کو بھی خوش رکھنا پڑتا ہے۔ ہر ایک کی اپنی قیمت ہے۔ یہ صرف کراچی میں نہیں ہوتا، لیکن یہاں پر حالات زیادہ خراب ہیں اور اس کی وجہ سندھ حکومت کے اندر کی بہت زیادہ نچوڑ لینے والی فطرت ہے۔
کراچی کی بدترین مشکلات میں مزید اضافہ گذشتہ پانچ برسوں سے ایک منتخب شہری حکومت کی عدم موجودگی سے ہوا ہے۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے، پی پی پی حکومت ملک کے سب سے دولت مند شہر کا سیاسی کنٹرول کھونا نہیں چاہتی۔ دو کروڑ کے لگ بھگ آبادی والا یہ شہر متعدد یورپی ممالک سے بھی بڑا ہے اور اسے بیوروکریٹس چلا رہے ہیں جو اس شہر اور اس کے مسائل کو بمشکل ہی سمجھ پاتے ہیں۔
وفاق کے ریونیو کا بڑا حصہ اور صوبائی بجٹ کے لگ بھگ نوے فیصد حصے کو سپورٹ کرنے والے اس شہر کے لیے بہت کم فنڈز دستیاب ہیں۔ کراچی میں متعدد مناسب بلدیاتی خدمات بھی دستیاب نہیں، ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ بورڈز کے زیرتحت علاقوں سے باہر ملک کا یہ صنعتی مرکز کچرے کا ڈھیر لگتا ہے۔ مہاجرین کی بے مہار آمد نے شہر کے بڑے حصے کو ایک بڑی کچی بستی میں تبدیل کردیا ہے جہاں بنیادی شہری سہولیات تک میسر نہیں۔
اس میگا سٹی میں کوئی ماس ٹرانزٹ سسٹم نہیں بلکہ یہاں پبلک بسوں کی تعداد میں بھی گزشتہ چند برسوں کے دوران کمی آئی ہے اور لوگوں کو اپنے دفاتر تک پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ موٹرسائیکلوں اور چھ سیٹر رکشوں کے انقلاب نے دباﺅ میں کمی میں مدد دی ہے، دو پہیوں کی سواری کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سستی موٹرسائیکلوں کی آسان اقساط میں دستیابی ہے۔
یہ الزام سامنے آتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کرانے سے انکار کی بنیادی وجہ وسیع اور مالی لحاظ سے پرکشش زمینیں ہیں۔ پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت کے سابقہ اور موجود دور میں آنے والا انتشار حیرت انگیز ہے، کچی بستیوں کی تیزی سے توسیع ساحل سمندر کے سامنے بلند و بالا شاپنگ مراکز اور اپارٹمنٹس عمارات کے ساتھ ہوئی۔ یقیناً منظرنامے میں رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض کی آمد نے تعمیراتی سرگرمیوں کو بڑی قوت دی ہے مگر یہ وہ بیل ہے جو سابق صدر آصف علی زرداری کے دروازے تک جاتی ہے۔
بلاول ہاﺅس کے قلعے کے لیے بڑی تعداد میں مکانات کو اطلاعات کے مطابق مارکیٹ قیمتوں پر خریدا گیا۔ انکار کو قیمت کی پیشکش کے جواب میں قبول نہیں کیا گیا۔ کلفٹن کنٹونمنٹ کی زمین کا بڑا حصہ اب بلند و بالا عمارات کا مرکز بن چکا ہے۔ قابلِ استعمال بنائی گئی زمینیں بااثر ٹائیکونز کے لیے خوش حالی کا زینہ بن گئی ہیں، دوسری جانب ایک نیا بحریہ سٹی بھی شہر کے مضافات میں سامنے آنے والا ہے۔
اس شہر کو تمام تر مسائل کے باوجود کیا چیز آگے بڑھا رہی ہے؟ اس کا جواب ممکنہ طور پر اس کی مزاحمت میں چھپا ہوا ہے۔ یہاں کا ثقافتی منظرنامہ ترقی پا رہا ہے۔ کچھ تخمینوں کے مطابق رواں برس کراچی ادبی میلے نے اپنی جانب کم از کم ایک لاکھ بیس ہزار افراد کو متوجہ کیا اور یہ تعداد گذشتہ سال سے کئی زیادہ ہے، مگر مزاحمت نے یہاں تبدیلی کو بھی مشکل بنایا دیا ہے۔ ایک مروف شہری پلانر اور آرکیٹیکٹ عارف حسین کے الفاظ میں "اچھا ہی ہوتا اگر یہ شہر اتنی مزاحمت کا مظاہرہ نہ کرتا۔"
لکھاری ایک مصنف اور صحافی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر لکھتے ہیں۔
zhussain100@yahoo.com
یہ مضمون ڈان اخبار میں 18 فروری 2015 کو شائع ہوا۔
0 Comments