فیض صاحب نے کہا تھا۔
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
نہ معلوم کیوں مجھے یہ غم آج ستا رہا ہے کہ فیض صاحب نے یہ شعر خاص لیاری والوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے کہا ہے اور اس شعر میں لیاری کی محرومیوں کی داستان چھپی ہوئی ہے۔
لیاری کے محنت کشوں اور طالب علموں سے فیض کی جذباتی وابستگی اور تعلیم دوستی ہارون کالج(کھڈہ) کے پرنسپل کا عہدہ سنبھالنے سے ہوئی تھی ، جب لیاری کے نوجوانوں نے 70 کی دھائی میں کالج کے سالانہ جشن طلبا کی تقریبات کے دوران ڈراما ’’سستا جیون مہنگی موت‘‘سٹیج کیا تو وہ نہ صرف ریہرسل دیکھنے آئے بلکہ انھوں نے ڈاکٹر ایم آر حسان کے ہمراہ ڈرامہ بھی دیکھا۔آج کسی کے پاس ناموں کی وہ کہکشاں نہیں ہے جنہوں نے فیض صاحب کے زیر سایہ آگے جاکر زندگی کے مختلف شعبوں میں نام پیدا کیا۔
اس حوالے سے آج صورتحال بدلی ہوئی ہے، میڈیا لاکھ دل مردہ کو سمجھائے کہ گینگ وارکمانڈروں کی ستائی اور مقدر کی ماری لیاری نے فیض صاحب کے بعد اب دوسرا جنم لیا ہے ، اس کے وجود سے چمٹی غربت اور لاچارگی کی ساری تاریک راہوں میں امیدوں کے نئے چراغ جل اٹھے ہیں، دہشت گردی کی طرح گینگ وار کو دفن کردیا گیا ہے، کچھ کچھ سچ بھی ہے مگر گھروں پرکیا گزری جن کے بچے گینگ وار کارندے نہ ہوتے ہوئے بھی موت کے گھاٹ اتارے گئے، ساری باتیں چھوڑیئے وہ دوکم عمر طالب علم جو صدر پینوراما سینٹر کے سامنے سے موٹر سائیکل پر گزر رہے تھے کہ قانون کے محافظوں کے اشارے پر نہں رکے جس پر انھیں گولیاں ماری گئیں، ایک طالب علم معذور جب کہ دوسرے کا جسم چھلنی ہوگیا۔
دونوں خوبصورت نوجوان ہیں، ان کا کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق نہ تھا، میں ان کے دینی گھرانے کا عینی شاہد ہوں ،ان طالب علموں میں سے ایک کی ماں اس سانحہ کا سن کر سکتے میں آگئیں اور کچھ دن بعد ان کا انتقال ہوگیا، ان دنوں دونوں طالب علموں پر موت کی تلوار لٹک رہی ہے اور یہیں مجھے فیض صاحب کی آہٹ محسوس ہوئی جب وہ کہتے ہیں ’’ بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے‘‘ کئی نوجوان مخبروں کے کہے پر ناحق مارے گئے، سیکڑوں کرمنل اور نان کرمنل گینگ وار کارندوں نے خود گھروں میں گھس کر یا بیچ سڑک پر زندہ مار دیے یا جلا دیے، یہ اس لیاری کا ذکر ہے جہاں کسی کی بلی مرجاتی تو لوگ اس کی تدفین کرتے تھے کائے بے زبان کو ماردیا۔ ہائے ہائے۔
گینگ وار کی مسلط کردہ بربادی ایک طلسماتی کہانی، دیو مالائی داستان تھی یا سیاسی صنم کدے کے بڑے بتوں کی سیاسی لڑائی کا شاخسانہ تھا کہ ایک پر امن بستی بے دردی سے اجاڑ دی گئی۔ کوئی شک نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ رینجرز کی کارروائی سے امن قائم ہوا ہے، لیکن کیوں پولیس کارروائی ناکام ہوئی، اسلم چوہدری کا کئی روز کا چیل چوک آپریشن سنجیدہ آپریشن تھا یا کیموفلاج ۔اس دن کے بعد سے رینجرز اور پولیس کی تفریق اور تقسیم کی میڈیا میں واضح طور پر تشہیر ہوئی، کیا قیامت خیز سوال ہے کہ لیاری کے چار تھانے(بغدادی ، کلری چاکیواڑہ اورکلاکوٹ) کیا کرتے رہے؟
زبردست نفری ، رینجرز اور انٹیلی جنس کا ابتدائی فعال نیٹ ورک، مگر دس سال تک لیاری میدان جنگ بنا رہا، کیوں اور کیسے؟ پی پی کا سیاسی قلعہ مسمار ہوا۔ بابو اقبال ڈکیت کی موت کے بعد سے لے کر سردار رحمٰن اور سردار عزیرکی سلطنت کے قیام تک اہل لیاری پر جو بیتی وہ بھی ایک کمیشن برائے انصاف و مفاہمت کی متقاضی تھی جس کی کمی رینجرز نے پوری کی، وہ رینجرز جسے ابتدا میں بوجوہ بے اختیار رکھا گیا۔ اسی عرصے میں ذوالفقار مرزا نازل ہوئے اور لیاری کا جنازہ نکال کر چلے گئے۔
بہر حال یہ رینجرز کا لیاری پر احسان ہے، رینجرز نے نوجوانوں کو زندگی کے متحرک اور پرامن دھارے میں شامل کرنے کے لیے اسپورٹس کے شعبوں کا دورازہ کھولا ہے، باکسنگ ،فٹ بال جس میں اسٹریٹ فٹ بال بھی شامل ہے، اس کی ترقی کے امکانات ہیں، رینجرز حکام تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمتوں کی فراہمی میں مدد دیتے ہیں، اب یہ کام حقیقت میں پی پی کے منتخب اراکین قومی و صوبائی اسمبلی شاہجہاں بلوچ، جاوید ناگوری ، سمیعہ ناز ، عبدالمجید بلوچ سمیت اسلم سموں، خلیل ہوت اور دیگر جیالوں کا ہے وہ لیاری کی ترقی میں ساری سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملائیں، اور تعمیر کا ماسٹر پلان سامنے لائیں۔
وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ بلاول بھٹو آصفہ اور بختاور کو ساتھ لائیں، اس ووٹ بینک کو مائی کولاچی کا روحانی اثاثہ سمجھیں، لیاری ایک وسیع المشرب اور کثیر اللسانی ٹاؤن ہے جس میں محبتوں کا زم زم حقیقی معنوں میں بہتا رہا ہے، جنہوں نے اسے زہر آب کیا وہ مکافات عمل سے نہیں بچنے چاہئیں۔ لیاری کے مذکورہ افراد سے وفا کی سب کو امید ہے، باکسنگ میں استاد اصغر بلوچ ، عابد حسین بروہی، فٹ بال میں ناصر جمال ، کپتان اقبال بلوچ ، حسین بخش، انجینیئر امام بخش، علی نواز ، مولا بخش گوٹائی اور سرور جیسے سابق انٹرنیشنل فٹ بالرزکی رہنمائی درکار ہے۔
جاوید ناگوری آگے بڑھیں ، تمام سیاسی جماعتوں کی مدد حاصل کریں اس لیے کہ لیاری نے ہر زبان و ثقافت اور عقیدہ کے انسانوں کا چمن سجایا ہے یہاں کے لوگ پیار و محبت سے دلوں کو جیتتے ہیں، یہ الگ داستان ہے کہ گینگ وار کارندوں نے ہمیں محفل سے بے آبرو کر کے نکالا، لیکن لیاری کی محبت اتنی گہری ہے کہ ’’دل بار بار کوئے ملامت کو جائے ہے۔‘‘اس روز دبئی سے ایک صحافی آئے تو کسی نے اطلاع دی کہ اماں زلیخا اور بابا رمضان کے ہاتھوں سے بھنے ہوئے سیخ کباب اور پکوڑوں نے ایک بار پھرگلیوں کی رونق بڑھائی ہے ، اماں حنیفہ کی دال اور ساگو دانے کی ملائی کے شوقین جوق در جوق فدا حسین شیخا روڈ پر آتے ہیں جہاں لطیف بلوچ کا اسکول ’گل نور‘ علم کا مینارہ نور بن کر تاریک راہوں میں روشنی پھیلا رہا ہے۔
کچھ سال پہلے اس اسکول کے سامنے گینگ وار کارندوں کا مجمع لگا رہتا تھا ، گلیوں کو بیرئیر لگا کر بند کردیا گیا تھا، کلری ، بغدادی تھانے سے چند قدم پر ٹارچر سیل قائم تھا، میں اس ٹارچر سیل کے سامنے رات گیارہ بجے ذلیل کیا گیا، لیاری کی دکانوں اور بس اڈوں سے بھتے لیے جاتے تھے، فشری کی بے زبان ماہی گیروں کی صاف ستھری کوآپریٹیو سوسائٹی بھی گینگ وار کی وارداتوں سے نہیں بچ سکی، مچھلی کے کئی تاجر لٹ گئے ، کئی بھتہ نہ دینے کے جرم میں بے رحمی سے مار دیے گئے، یہ صائب اقدام تھا جس کے تحت دہشت گردوں کے مالیاتی نیٹ ورک اور ملی بھگت کو توڑنے کے لیے مربوط کارروائی جاری ہے۔ اسی وجہ سے حاجی ولی اور ان کے ساتھیوں نے آخر کار سوسائٹی کو تباہی سے بچا لیا۔
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہونگے کہ علاقے کے محنت کش اور طالب علم آجکل بے خوف ہوکر گھر سے نکلتے ہیں، گینگ وار لارڈز بیرون ملک جاچکے ہیں، کچھ مارے گئے، بعض مناسب وقت کے لیے سیف ہیون میں اپنی تقدیرکے منتظر ہیں۔ کسی کو پتھروں پر چل کر کسی کے گھر نہیں جانا پڑتا، زندگی نئی کروٹ لے رہی ہے۔
رینجرز کے آپریشن سے حالات بدل گئے ہیں، زندگی نے نیا پیراہن زیب تن کیا ہے، مستقبل کے حسین خوب جو جرائم پیشہ گروہوں کے قدموں تلے روندے گئے وہ اب شاداب غنچوں کی طرح کھل اٹھے ہیں۔ ایک ریشمی بیانیہ ہے جسے امیدوں کے فلائی اورر پر سوتے ہوئے لیاری کے لوگ اپنے خوابوں میں دہراتے ہیں، لیکن وحشت کے مارے ہم جیسے نا سمجھ و کم علم لوگ جنہیں لیاری پر گزری ہارر فلم کے مناظر نے رنگ میں چاروں شانے چت گرے ہوئے باکسر کی صورت دیدہ عبرت نگاہ بنا دیا ہے ان پر تاحال حقائق کے ادراک اور نئی لیاری میں اٹھنے والی تخلیقی تڑپ کے پیغام کا ابلاغ نہیں ہورہا ۔
لیاری کے عوام کو نیلسن منڈیلا سے بہت پیار تھا، وہ ان کے آئیڈیل تھے، نون میم دانش جو لیاری کی کوکھ سے صنم آشنا ہوکر پیدا نہیں ہوئے بلکہ وہ حقیقت افروز شاعری اور تفکرانہ خیالات کے ذریعے اہل لیاری کو ایک حسیں مستقبل کے لیے تیار کرتے رہے مگر پھر وہ اور صبا دشتیاری دو الگ راہوں کے مسافر نکلے۔ایک دل شکستہ ہوکر امریکا سدھار گئے اور دوسرے نے سچ کا پیالہ پی کر بلوچستان میں موت کو گلے لگا لیا۔
نادر شاہ عادل
0 Comments