چار برس پہلے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے ایسے 35 لاکھ دولت مند پاکستانیوں کا ڈیٹا مرتب کیا جو بڑے بڑے بنگلوں اور اپارٹمنٹوں میں رہتے ہیں، ایک سے زائد بینک اکاؤنٹ اور گاڑی کے مالک ہیں، اور سال میں ایک سے زائد بار بیرونِ ملک سفر کرتے ہیں مگر ٹیکس خور ہیں۔
وفاقی ٹیکس اداروں کا اندازہ ہے کہ پاکستان کی قومی پیداوار میں تجارت کا حصہ تقریباً 20 فیصد ہے۔ مگر 40 لاکھ چھوٹے بڑے تاجروں میں سے لگ بھگ ایک لاکھ 40 ہزار تاجر ہی ٹیکس نیٹ میں ہیں۔ گویا قومی پیداوار میں پانچویں حصے کا مالک طبقہ محض 0.05 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے۔
اس ملک کی 20 کروڑ آبادی کے 1169 منتخب نمائندے ٹیکس قوانین بنانے والی وفاقی پارلیمنٹ اور چار صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ گذشتہ ٹیکس سال میں 95 ارکانِ اسمبلی اتنے غریب نکلے کہ انھوں نے ٹیکس ریٹرن میں زیرو آمدنی دکھائی، اور خطِ غربت تلے زندگی گزارنے والے 129 ارکانِ اسمبلی نے خود کو ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کے قابل تک نہیں سمجھا۔
سال 14-2013 کے ٹیکس ریکارڈ کے مطابق پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی مملکت میں بدلنے کے لیے کوشاں مولانا فضل الرحمان نے 15688 روپے، نیا پاکستان بنانے میں دن رات مصروف عمران خان نے دو لاکھ 18 ہزار، پاکستان کو اقتصادی ٹائیگر بنانے والے نواز شریف نے 26 لاکھ، عوام کے استحصال پر تڑپ اٹھنے والی فریال تالپور نے 48 لاکھ روپے اور حکومت کے عیب جو قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے ایک لاکھ 54 روپے ٹیکس دیا۔ جبکہ تمام ٹیکس پالیسیوں کے داروغہ اسحاق ڈار نے 28 لاکھ 67 ہزار روپے جمع کرایا۔
المختصر قومی خزانے کو تمام وفاقی و صوبائی پارلیمینٹیرینز کی جانب سے 55 کروڑ 32 لاکھ روپے کا ٹیکس نذرانہ ملا۔ اس میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے رکنِ پنجاب اسمبلی چوہدری ارشد جاوید کے 24 کروڑ 80 ہزار اور چوہدری اعتزاز احسن کے سوا کروڑ روپے بھی شامل ہیں۔
تصویر کچھ یوں ہے کہ 20 کروڑ پاکستانیوں میں سے اس وقت تقریباً دس لاکھ لوگ ٹیکس نیٹ میں ہیں، ان میں دو تہائی تنخواہ دار ہیں جن کا ٹیکس پیشگی ہی کٹ جاتا ہے۔
نواز شریف نے 26 لاکھ ٹیکس ادا کیے
مگر حکومت نے ہمت نہیں ہاری۔ اسحاق ڈار کا ہدف ہے کہ موجودہ حکومت کی مدت مکمل ہونے سے پہلے پہلے ٹیکس گزاروں کی تعداد دس لاکھ سے بڑھ کے کم از کم 20 لاکھ ہو جائے۔
اس مقصد کے لیے حکومت نے پاکستان کی 70 سالہ تاریخ کی سب سے مہربان والنٹیری ٹیکس کمپلائنس سکیم (یو ٹی سی ایس) کے نام سے یکم فروری کو نافذ کی جس سے فائدہ اٹھانے کی حتمی تاریخ 15 مارچ ہے۔ یہ سکیم تمام سرکردہ تاجر تنظیموں سے چار ماہ کے صلاح مشورے کے بعد تیار کی گئی۔
تاجروں کو ٹیکس ریٹرن میں پانچ کروڑ تک آمدنی دکھانے پر ہر سو روپے پر صرف دو پیسہ ٹیکس اور 25 کروڑ یا اوپر آمدنی دکھانے پر سو روپے پر 15 پیسے جمع کرانے ہوں گے۔ اس کے بدلے تاجروں سے آمدنی کا ذریعہ نہیں پوچھا جائے گا اور سنہ 2018 تک ان کی آمدنی کا کوئی آڈٹ نہیں ہو گا۔ سکیم کا مقصد تاجروں میں ٹیکس کلچر کا فروغ بتایا گیا ہے تاکہ سنہ 2018کے بعد اس کے فوائد دیکھتے ہوئے خود بخود نارمل شرح پر ٹیکس دینے کے عادی ہوتے چلے جائیں۔
لیکن ہوا کیا؟ جس سکیم کا ہدف کم ازکم دس لاکھ تاجروں کو انھی کی شرائط پر ٹیکس نیٹ میں لانا تھا۔ آج کی تاریخ تک ان میں سے تین ہزار سے بھی کم نے ٹیکس ریٹرن فائل کیے ہیں اور باقی مطالبہ کررہے ہیں کہ سکیم میں کم ازکم 30 جون تک توسیع دی جائے۔
باقاعدگی سے ٹیکس جمع کرانے والے اس رضا کارانہ ٹیکس سکیم کے امتیازی پہلوؤں سے ناخوش ہیں لیکن کالی بھیڑیں پھر بھی سفید ہونے پر آمادہ نہیں۔ اب ایک ہی راستہ ہے کہ جس طرح حکومت نے پی آئی اے کے ملازموں سے نمٹنے میں پھرتیاں دکھائی ہیں۔ ایسی ہی پھرتیاں ہر حکومت کی ٹیکس ایمنسٹی سکیمیں ناکام بنانے والے تاجر طبقے سے ٹیکس نکلوانے میں بھی دکھائے تو مانیں۔
اچھا تو پھر ان 35 لاکھ خوشحال ٹیکس فری پاکستانیوں کا کیا کرنا ہے جن کی فہرستیں نادرا سنہ 2012 سے سنبھالے بیٹھی ہے؟
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
0 Comments