’’کچھ سنا آپ نے ضمیر جاگ گیا ہے؟‘‘
’’مبارک ہو لیکن اس کو جگایا کس نے ہے ۔ ضمیر توگہری نیند سو رہا تھا۔‘‘
’’جگانے والے نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ضمیر کو بتایا گیا تھا کہ اگر وہ نہیں جاگے گا تو اسے گہری نیند سلا دیا جائے گا۔‘‘
’’ضمیر نے جاگنے کے بعد کیا ’کمال‘ کیا ہے؟‘‘
’’بھائی کی شان بیان کرنے کی کوشش کی ہے جس سے ہر خاص و عام پہلے ہی واقف ہے۔‘‘
’’پھر نئی بات کیا ہے؟‘‘
’’نئی بات یہ ہے کہ برسوں سے’قائم‘ افراد اور’ڈاکٹر‘ بھی اس ’کمال‘ کا شکار ہو رہے ہیں۔ بہت جلد محکمہ سیاسی موسمیات نے مزید بارش کی پیش گوئی کی ہے اور وہ بھی گرج چمک کے ساتھ۔‘‘
’’اسی لیے کراچی والوں نے شہر کی صفائی کا اعلان کر دیا ہے ۔ انہیں ڈر ہے کہ بارش کا پانی کہیں شہر میں جمع نہ ہوجائے ۔ اس لیے جتنی جلد ممکن ہوسکے اس پانی کو جمع نہ ہونے دیا جائے اور گٹروں کی صفائی شروع کردی گئی ہے۔‘‘
’’ابھی تو کراچی میں گٹروں کی غلاظت جمع ہے یہ نکلے گی تو بارش کے صاف پانی کو نکلنے کا راستہ ملے گا۔‘‘
’’یہ عہد بھی کیا گیا ہے کہ اس غلاظت کو شہر سے نکال کر ہی دم لیں گے اور اسے انجام تک پہنچائیں گے۔‘‘
’’ کراچی میں گٹرکا پانی کیا کم تھا جو یہ بارش کا پانی بھی جمع ہونے کے لیے جگہ تلاش کررہا ہے۔‘‘
’’لیکن یہ بات تو طے ہے کہ شہر میں صفائی کی ضرورت ایک عرصہ سے محسوس کی جارہی تھی اور کراچی والے کسی رحمت کی بارش کے منتظر تھے۔‘‘
’’لیکن میرے بھائی بارش تو آپ کے لیے وبال جان بن جائے گی۔ آپ کے پاس نکاسی کا نظام جو نہیں ہے۔‘‘
’’نظام تو ہے لیکن وہ اکثر سویا رہتا ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو وہ گھر سے نکلتا ہے۔‘‘
’’یہ تم اسی نظام کی بات کررہے ہونا ں جس کے گھر کے باہر کسی نے کچرا ڈالا تو وہ جاگ گیا تھا ۔‘‘
’’نظام کو چھوڑو اب شہر میں جھاڑو پھرنا شروع ہوگیا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کچرے کو اصل مقام پر ٹھکانے لگایا جاتا ہے یا خود کچرا پھینکنے والوں کو اصل مقام پتا چلتا ہے۔ ‘‘
’’کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو کراچی سے کئی بار کچرے کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ کچرا شہر سے نکلتا ہی نہیں ہے۔‘‘
’’اسی لیے اس کچرے کی وجہ سے شہر میں مچھروں کا راج ہے۔مجھے ڈر ہے کہ بارش کے بعد ان مچھروں کی مزید افزائش ہوگی۔‘‘
’’دیکھتے ہیں اس بار بارش رحمت بنتی ہے کہ زحمت…!!‘‘
میرشاہد حسین
0 Comments