Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی کی بس میں سفر ہورہا ہے

ہماری قوم دنیا کی بہادر ترین قوم ہے۔ یہ صرف ایک ستائشی جملہ نہیں بلکہ

سچائی ہے، اور اس کا ثبوت ملک کے صنعتی مرکز کراچی کی سڑکیں ہیں۔ آپ نے ان سڑکوں اور اس پر چلتی گاڑیوں کو تو دیکھا ہوگا، ان سڑکوں پر جس طرح سے گاڑیاں چلاتے ہیں وہ ہمارے ڈرائیورز کی بہادری نہیں تو کیا ہے۔ ایک ثبوت بہادری کا ملاحظہ ہو کہ، ان ہی سڑکوں پر موجود پبلک ٹرانسپورٹ کے مسافر بھی بہادری کی اعلیٰ مثالیں رقم کرتے نظر آتے ہیں اور حقیقی معنوں میں اپنی جان پر کھیل کر ان بسوں کے ذریعے اپنی منزل پر پہنچتے ہیں۔

یہ تمام لوگ ہماری قوم کے جانباز ہیں جو جان ہتھیلی پر رکھ کرعلم حاصل کرنے اور پیٹ بھرنے کیلئے کمانے جاتے ہوئے روزانہ سر فروشی کی جوت جگائے سفر کرتے ہیں۔ ٹوٹے ہوئے ہینڈل، زنگ آلود باڈی اور ٹوٹی پھوٹی سیٹیں، شیشوں سے محروم کھڑکیاں، دروازوں سے باہر نکلتے لٹکتے، بسوں کی چھتوں پر قدرتی ایئر کنڈیشنر اور سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں سے مستفید ہوتے افراد ہماری ان بسوں کی خاص پہچان ہیں۔ دراصل اسطرح سفر کرنے میں حکمت یہ ہے کہ سورج کی ان شعاعوں میں روزانہ کچھ وقت گزارنے سے ان میں وٹامن ڈی کی کمی نہیں ہوگی اور نتیجے کے طور پر یہ افراد مستقبل میں جوڑوں کے درد کا شکار نہیں ہوں گے، اسی لئے ہماری پیاری حکومت نے نہایت دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے ان ہی بسوں کو رواں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اندازے کے مطابق شہر میں ہزاروں بسوں اور کوچوں میں سے بیشترعشروں پرانی ہیں اور اپنی مدت حیات پوری کر چکی ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کی ہمت دیکھئے کہ اپنی گنجائش سے زیادہ افراد کو منزل مقصود تک پہنچاتی ہیں جب کہ ان بے چاریوں کی مناسب دیکھ بھال بھی نہیں ہوتی۔ بات اصل میں یہ ہے کہ بطور قوم ہم لوگ انتہائی کفایت شعار وا قع ہوئے ہیں، چونکہ ان گاڑیوں کی دیکھ بھال میں کافی پیسہ خرچ ہوتا ہے اور ہمارے ملک کی معیشت اس فضول خرچی کی اجازت نہیں دیتی، لہذا ان بسوں کو ویسے ہی چلا لیتے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس کی وجہ سے ہمیں 3 گنا زیادہ ایندھن استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اور پھر اگر ان سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہو بھی تو کیا ہوا، اب تو زہریلی فضا کی ایسی عادت سی ہوگئی ہے کہ کہیں صاف ستھری ہوا مل جائے، تو دم گھٹنے لگے گا۔

ماس ٹرانزٹ نظام کے منصوبے تو بنائے جاتے ہیں، لیکن صرف کاغذات کی حد تک۔ اب شہر کے ایک حصے میں وفاقی حکومت گرین لائن بس ریپڈ ٹرانزٹ نظام پر کام کر تو رہی ہے جس تکمیل کے بعد قوی امکان یہی ہے کہ ہم آلودہ راستے سے محروم ہوجائیں گے۔ ماہرین کے مطابق کراچی جیسے میگا سٹی کی آمد و رفت کی ضروریات پوری کرنے کے لئے میٹرو ٹرین سروس ہونا چاہیئے، جیسا کہ دنیا کے گنجان اور بڑے شہروں میں ہوتی ہیں۔ لیکن کیا کریں کہ ہم پر مغرب کی پیروی کرنے کا الزام ہے۔ لہذا ایسا ہم بالکل نہیں کریں گے، کبھی نہیں کریں گے۔
عشروں قبل سید ضمیر جعفری مرحوم نے ایک نظم لکھ کر بسوں کی حالت زار کا رونا رویا تھا۔ ستم ظریفی دیکھئیے، یہ نظم آج کی صورت حال پر بھی صادق آتی ہے، نظم کا کچھ حصہ ملاحظہ کیجئے اور سر دھنیئے۔

کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
نہیں ہو رہا ہے مگر ہو رہا ہے
جو دامن تھا، دامن بدر ہو رہا ہے
کمر بند گردن کے سر ہو رہا ہے
سفینہ جو زیر و زبر ہو رہا ہے
اِدھر کا مسافر اُدھر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
چلی تو مسافر اُچھلنے لگے ہیں
جو بیٹھے ہوئے تھے وہ چلنےلگے ہیں
قدم جا کے ٹخنوں سے ٹلنے لگے ہیں
جو کھایا پیا تھا اُگلنے لگے ہیں
تماشا سرِ رہ گزر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
جو کالر تھا گردن میں، ’’لر‘‘ رہ گیا ہے
ٹماٹر کے تھیلے میں ’’ٹر‘‘ رہ گیا ہے
خدا جانے مرغا کدھر رہ گیا ہے
بغل میں تو بس ایک پر رہ گیا ہے
کوئی کام ہم سے اگر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

(سید ضمیر جعفری مرحوم)

کوثر جبین 

Post a Comment

0 Comments