Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی کو پیرس بنانے کے خواب

ملک میں چھٹی نگراں حکومت آگئی تاکہ وہ شفاف الیکشن کرا کر اقتدار آنے والے منتخب نمائندوں کے حوالے کر کے سبکدوش ہوجائے۔ پچھلی نگراں حکومت میں خصوصاً پنجاب کے چیف منسٹر نجم سیٹھی پر الیکشن میں دھاندلیوں کے الزامات پی ٹی آئی کے عمران خان نے لگائے تھے۔ احتجاج ہوا علامہ طاہرالقادری ماڈل ٹائون سانحہ کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لینے پر عمران خان کے ساتھ اسلام آباد دھرنے میں شریک ہوئے، بعد ازاں دھرنا سانحہ آرمی پبلک اسکول کی وجہ سے منسوخ کرنا پڑا اور حکومت کامیابی سے جھیل گئی۔ اب پھر نگران حکومت آ چکی ہے اس کو غیر جانب دار رہنے کی ضرورت ہے۔ ماضی کی حکومت نے 5 سال ٹیکسوں، قرضوں، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بیروزگاری، صاف پانی کی فراہمی کے وعدوں کو ہوا میں اُڑا کر اپنی حکومت اور اقتدار کو ن لیگ سے نہیں نکلنے دیا۔ بے تحاشہ کرپشن کے الزامات لگتے رہے تمام مقدمات چلتے رہے اب 10 سال ہونے کو آرہے ہیں ۔

پی پی پی دور کے مشہور مقدمات 5 سال تک چلتے رہے۔ اربوں روپے کی کرپشن رینٹل پاور منصوبے، ایفی ڈرین، حج اسکینڈل، نندی پور پاور پروجیکٹ میں ملوث تمام ملزمان آزاد گھوم رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے موجودہ 5 سالوں میں بھی پانامہ لیکس کا شور رہا صرف میاں نوازشریف ہی نااہل ہوئے۔ قانون کے مطابق نگراں حکومت آگئی اور آتے ہی اچانک ڈالر 110 روپے سے راتوں رات 125 روپے تک پہنچا دیا گیا۔ پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا اس پر بھی بس نہیں ہوا۔ پیٹرول اور ڈیزل کو بالترتیب 100 روپے لیٹر اور 124 روپے لیٹر کر دیا گیا۔ اس نگراں حکومت کو چیف جسٹس ثاقب نثار بھی لگام نہیں ڈال سکے۔ البتہ ایک کمیٹی ضرور تشکیل دی ہے جو اس کے بڑھانے کا جواز بتائے گی ۔

قوم کی معلومات کے لئے اس وقت پیٹرول بیرونی دنیا میں 48 ڈالر فی بیرل میں فروخت ہو رہا ہے۔ ایک بیرل میں 159 لیٹر ہوتے ہیں جب پاکستان نے خریدا تو ڈالر 105 روپے کا تھا۔ تمام اخراجات بھی لگائے جائیں تو 60 ڈالر فی بیرل ہوتے ہیں۔ اگر آج کا ڈالر بھی لگائیں تو 125 روپے فی ڈالر سے 46 روپے فی لیٹر قیمت خرید ہے۔ اُس پر 17 فی فیصد سیلز ٹیکس 3 فیصد ایکسائز ٹیکس (جبکہ تمام اشیاء سے ایکسائز ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے ) 6 فیصد سر چارج (تمام اشیاء پر سرچارج بھی ختم کیا جا چکا ہے ) پھر بھی 57 روپے فی لیٹر بنتا ہے۔ اس نگراں حکومت کو کس نے اختیار دیا ہے کہ وہ منافع میں اضافہ کر کے عوام پر مزید بوجھ ڈالے۔ وہ 25 جولائی تک کی مہمان ہے جبکہ خود حکومت کو 100 ارب روپے ایمنسٹی اسکیم سے وصول بھی ہو چکے ہیں ۔ اور اُس کی تاریخ میں بھی توسیع ہو چکی جس سے مزید 100 ارب روپے متوقع ہیں۔

ابھی عوام اس پیٹرول بم کےاثرات سے نکلے نہیں تھے کہ اسی نگراں حکومت کی آڑ میں کے الیکٹرک نے تمام غریب صارفین 300 یونٹ تک جن کو 5.80 روپے فی یونٹ چارج کرتے تھے اچانک 10:20 روپے فی یونٹ لگا کر پچھلے ماہ کا بل بھیج دیا ہے اور اس سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والے غریب صارفین کی حد 15:20 روپے فی یونٹ تک بڑھا کر عوام پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے ۔ اب جب کوئی بھتہ بھی وصول کرنے والا نہیں ہے کس کی آڑ میں یہ اضافہ کیا گیا ہے ۔میری چیف جسٹس صاحب سے درخواست ہے کہ عوام کو کے الیکٹرک کی من مانی قیمتوں سے بھی نجات دلوائی جائے۔ جبکہ دیگر صوبوں میں پرانے ہی داموں پر غریب صارفین سے بل وصول کئے جارہے ہیں ۔ سندھ ہی کو مہنگی بجلی بیچنے کی اجازت کس نے دی ہے؟

چیف جسٹس صاحب کی ڈیم بنانے کی خوشخبری بھی عوام کو پانی کی فراہمی کا سبب بنے گی مگر اُس میں بہت وقت لگے گا۔ جب ہمارے ملک میں دودو سمندر موجود ہیں ہم دیگر ممالک کی طرح پلانٹ لگا کر میٹھا پانی اور بجلی پیدا کر سکتے ہیں ۔ تو پھر مقامی طور پر پرائیویٹ سیکٹر کو یہ موقع کیوں فراہم نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر اس کی بھی آزادانہ پلانٹس لگانے کی اجازت دے دی جائے تو فوری طور پر یہ مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے ۔ اگر چہ قوم اس الیکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے مگر اس مرتبہ کراچی پر سب سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ پہلی مرتبہ مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں شہباز شریف اور پی پی پی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری اور پی ٹی آئی کے عمران خان سب آمنے سامنے آچکے ہیں ۔ کراچی والے گو مگو کی حالت میں ہیں۔

آیا وہ لسانی تنظیم سے نکل کر قومی سیاسی جماعتوں کی طرف بڑھتے ہیں یا پھر اُسی میں پھنسے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے ۔ یہ بھید 25 جولائی کو ہی کھلے گا۔ ابھی تو وہ پینے کے پانی کی لائنوں میں صبح سے شام قطاریں لگانے میں مصروف ہیں۔ تمام جماعتیں ان کو پھر تسلیاں دینے میں لگی ہوئی ہیں کہ ہم اگر اقتدار میں آگئے تو ہم تمہیں صاف پانی ، سٹرکیں اور سیوریج کا نظام ٹھیک کروا دیں گے ۔ کوئی بھلا ان سے پوچھے کہ گزشتہ 30 سال سے یہی جماعتیں اقتدار میں تھیں تو پھر کراچی کو پیرس بنانے کا خیال کیوں نہیں آیا ۔ کراچی جو جگمگاتا شہر ہوتا تھا اب وہ موہنجودڑو کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ کون اور کب اس کو پیر س بنائے گا۔ اللہ ہی کو معلوم ہے ۔ مگر لگ ایسا رہا ہے کہ جیسے یہ تمام سیاست دان دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں کہ چلو پھر ہم سب مل کر عوام کومزید 5 سال کے لئے بے وقوف بنائیں۔

خلیل احمد نینی تا ل والا

Post a Comment

0 Comments