وزیراعظم نے کراچی کے لیے ایک سو باسٹھ ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی پچھلی حکومت نے دو سو ارب روپے کے قریب کراچی پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ آخر اتنی بڑی بڑی رقم کے پیکیجز کے اعلان کا مقصد کیا ہے؟ سب سے پہلے تو پیکیج کی تعریف کی جائے آخر پیکیج سے مراد کیا ہے؟ پھر اس کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ پھر اس مقصد کے حصول کے لیے کیا منصوبہ تیار کیا جاتا ہے؟ پھر اس پر عملدرآمد کیسے کیا اور کروایا جاتا ہے؟ افسوس آج تک ایسی کوئی تفصیل عوام تک نہیں پہنچائی جاتی ۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب حسب معمول بغیر کسی منصوبہ بندی کے ایک بڑے مجمع یا الیکٹرانک میڈیا پر صرف رقم کا اعلان کر کے سیاسی کرتب (Political Stunt) دیکھانا ہوتا ہے۔ تاکہ اپنی حکومت کو چلانے کے لیے اور عددی کمی کو پورا کرنے کے لیے اپنے اتحادیوں کو وقتاً فوقتاً "چورن" اوہ معاف کیجئے گا پیکیج کا اعلان کیا جاتا ہے۔
کیونکہ جب باقاعدہ منصوبہ بندی کے بغیر کوئی رقم فراہم کی جائے گی تو ظاہر سی بات ہے کہ اس کے استعمال پر بھی کسی قسم کی روک ٹوک بھی نہ ہو گی۔ عوام بھی خوش اور اتحادی بھی۔ اصل حقیقت میں پیسے کہاں گئے کون پوچھتا ہے! باغ ابن قاسم کی "تیسری بحالی "کی تقریب میں وزیراعظم نے شہر کو کنکریٹ کے ٹکڑوں سے تشبیہ دی اور شجرکاری پر بہت زیادہ زور دیا کہ اس کی بدولت ہم ماحولیاتی تبدیلی کے اثر سے باہر نہیں نکل سکتے ہیں۔ لیکن وزیراعظم صاحب سے گزارش ہے کہ انہوں نے میئر کراچی ، وزیراعلیٰ اور گورنر صاحبان سے یہ سوال کیوں نہ کیا کہ کیا وجہ ہے کہ " ایک ہی باغ کی بار بار بحالی کی تقریب" اتنے بڑے خرچہ سے کی جارہی ہے؟ جب کہ شہر میں شہری اور صوبائی حکومتیں تسلسل کے ساتھ ایم کیو ایم اور پی پی پی کی ہی ہیں۔
تو بحیثیت حکمران پاکستان عمران خان سرزنش کر نہیں کر سکتے تھے کہ ایک طرف تو میں بچت اسکیم کی طرف جارہا ہوں دوسری طرف آپ پہلے سے موجود منصوبہ کی مناسب نگرانی اور maintenance نہیں کر پا رہے ہیں۔ تو ایسے تو کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہو گا ؟ شجرکاری کی مہم چلانا یقیناً ایک اچھا قدم ہے لیکن صرف درخت لگانے سے سبزہ نہیں ہوتا اس کے لیے پانی کا مناسب بندوبست بہت ضروری ہے۔ K-4 کی بات تو کی گئی لیکن کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی دہائی بھول گئے، جو چیخ چیخ کہ کہہ رہا ہے کہ ہم بہت دباؤ کا شکار ہیں۔ کسی قسم کے غیرقانونی ہائیڈرنٹ کو ہم ختم نہیں کر پا رہے ہیں۔ اسی لیے ہماری کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔ جب تک اس ادارے کو "سیاسی وغیرسیاسی مافیا "کی تسلط سے آزاد نہیں کروایا جائے گا شجرکاری کی مہم اور K-4 منصوبہ کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔
بالکل اسی طرح پودے لگانے کا فائدہ اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک گلی کوچوں، سڑکوں، شاہراؤں پہ پڑے کچرے کے ڈھیر کو ختم نہیں کیا جائے گا۔ ہفتے کے سات دنوں میں صرف کچھ وقت کچرا اٹھایا جاتا ہے ۔ یعنی یہاں بھی سرکاری دنوں میں ہی کام کیا جاتا ہے اور دن میں صرف ایک وقت کچرا اٹھایا جاتا ہے۔ جبکہ آپ کو باخوبی اندازہ ہو گا کہ ہرمہذب شہر خاص طور پر لندن میں ایک دن میں متعدد مرتبہ کچرے کے ڈرم خالی کئے جاتے ہیں پھر کراچی میں صرف ایک وقت ہی کیوں؟ دوسری طرف وزیراعظم صاحب نے بڑا زور ڈالتے ہوئے کہا کہ میں کراچی کی زمینوں کو استعمال میں لانے کے بجائے یہاں کثیرالمنزلہ عمارت کی تعمیر کی اجازت دیتا ہوں۔ بہت خوب ایک طرف ماحولیات کی تباہی کا انتباع دیتے ہیں تودوسری طرف کنکریٹ کے استعمال کی ترویج ، سرپیٹ لینے کو دل چاہتا ہے۔
جناب والا! آپ کے اردگرد آجکل Real estate developers کا ہجوم ہے۔ وہ آپ کو جو سمجھاتے ہیں وہ آپ فرما دیتے ہیں ۔ کثیرالمنزلہ عمارت کے لیے گیس، بجلی، پانی، سیوریج اور سڑک کی " کثیرمقدار" درکار ہوتی ہے، ایک " چھوٹی سی قطعہ زمین" کے لیے۔ ایسے میں آئے دن کی لوڈ شیڈنگ ، بجلی وگیس، پانی اور سیوریج کے مسائل اور ٹریفک کے اژدہام اور پارکنگ کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ یقین نہ آئے تو ایسے علاقوں کا ذرا معائنہ کر کے دیکھ لیجئے۔ ماننا کہ پچھلی حکومتوں کو کراچی سے کوئی دلچسپی نہ تھی کہ انہیں یہاں سے ووٹ نہیں ملتا تھا۔ مگر آپ کو تو کثیر تعداد میں ووٹ بھی ملیں ہیں اور نشستیں بھی۔ تو برائے مہربانی کراچی کے مسائل کا گہرائی اور باریک بینی سے جائزہ لیجئے۔ اوراس کے اصل مسائل حل کرنے کی کوشش کریں صرف اعلان سے کچھ نہ ہو گا۔
0 Comments