Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی پیاسا ہے

کراچی میں جگہ جگہ قلت آب کی وجہ سے مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان کے علاقوں میں کئی کئی ہفتوں سے پانی نہیں آرہا ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ کراچی میں پینے کے پانی کی فراہمی میں کمی ہی آتی جارہی ہے ۔ کراچی میں پانی کی فراہمی کے ذمے دار ادارے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے سربراہ کئی مرتبہ برسرعام یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اس وقت کراچی کو فراہم کیا جانے والا پانی کراچی کی آبادی کی ضروریات کا محض 44 فیصد پورا کرتا ہے اور اگر جلد ہی فراہمی آب کے نئے منصوبے نہ مکمل کیے گئے تو کراچی میں پانی کی فراہمی پر فسادات کا اندیشہ ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پانی ہی نہیں ہے تو اسے کس طرح فراہم کرنے کا بندوبست کیا جا سکتا ہے ۔ 

ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف جو پانی میسر ہے ، اس میں بھی بڑے پیمانے پر چوری کی جارہی ہے ۔ کینجھر جھیل سے کراچی آنے والے پانی کی لائن سے جگہ جگہ چوری کر کے اسے کاشتکاری کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس چوری میں واٹر بورڈ کا عملہ اور مقامی انتظامیہ دونوں ہی شامل ہیں جس کی وجہ سے کراچی کو پینے کے لیے ملنے والے پانی کا ایک بڑا حصہ راستے میں ہی غائب ہو جاتا ہے ۔ جو پانی کراچی پہنچتا ہے ، اس میں بھی زور آور لوگ اپنے علاقے کی طرف پانی کا رخ موڑ لیتے ہیں جس سے دیگر علاقے مسلسل پانی سے محرومی کا شکار رہتے ہیں۔ 

اسی طرح سیاسی لیڈر بھی اپنے علاقے میں پانی کی بلا تعطل فراہمی کے لیے عملے کو مجبور کرتے ہیں ۔ اخبارات میں مسلسل خبریں چھتی رہی ہیں کہ واٹر بورڈ کے عملے کو مجبور کیا گیا کہ دیگر علاقوں کا پانی بند کر کے ان کے علاقے کو پانی فراہم کیا جائے ۔ لائن سے پانی کی فراہمی کی معطلی کا عوام نے یہ علاج نکالا تھا کہ بورنگ کروالی جائے۔ بورنگ میں اکثر پانی کھارا نکلتا تھا تو اس پانی کو صفائی اور دھلائی جیسے کاموں کے لیے استعمال کر لیا جاتا تھا ۔ اب آر او پلانٹ مافیا کی آمد کے بعد اس پانی سے بھی عوام کو محروم کر دیا گیا ہے ۔ آر او پلانٹ مافیا جگہ جگہ کنوئیں کھود کر اس کے پانی کو آ ر او پلانٹ کے ذریعے پینے کے قابل بنا کر منرل واٹر کے نام پر فروخت کر کے خوب کمائی کر رہی ہے ۔ 

اس کمائی میں سب ہی حصہ دار ہیں، اس لیے ان کے تحفظ کے لیے بھی سارے ہی موجود ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ زیر زمین پانی بھی اب کمیاب ہوتا جارہا ہے اور کچھ عرصے کے بعد یہ بھی نایاب ہو جائے گا ۔ اب کراچی کے عوام کہاں جائیں کہ انہیں لائن کے ذریعے بھی پانی فراہم نہیں کیا جارہا ہے اور کنوئیں کے ذریعے ملنے والا پانی بھی ختم کر دیا گیا ہے ۔ ایسے میں کراچی میں پانی پر فسادات ہی ہوں گے ۔ بہتر ہو گا کہ سندھ حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے اور اس سے قبل کہ حالات قابو سے باہر ہوں ، فوری طور پر پانی کی فراہمی کے نئے منصوبے شروع کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ہی پانی کی چوری اور پانی کے رساؤ کے معاملات بھی حل کیے جائیں۔

کراچی کے لیے آنے والے پینے کے پانی میں چوری کوئی چھوٹا جرم نہیں ہے ۔ اس کے ذمے دارو ں کے خلاف فوری کارروائی کی ضرورت ہے ۔ جگہ جگہ پانی کا رساؤ ہو رہا ہے اور کوئی اس پر بھی ایکشن لینے والا نہیں ہے ۔ یونیورسٹی روڈ پر میٹرو اسٹور کے سامنے کے الیکٹرک نے اچانک سڑک کھود ڈالی تھی جس کے نتیجے میں پانی کی بڑی لائن بھی متاثر ہوئی ۔ اس لائن سے روز پانی بہہ کر مین یونیورسٹی روڈ کے دونوں ٹریک تباہ کر رہا ہے مگر کوئی دیکھنے والا نہیں ہے ۔ اسی طرح کے تھری کے ریزروائر سے دن رات پانی بہتا رہتا ہے ۔ علاقے کے لوگوں نے عاجز آکر اس کا رخ سیوریج لائن سے ملا دیا ہے مگر ابھی تک اسے درست نہیں کیا گیا ہے ۔ 

یہی صوررتحال دیگر علاقوں کی بھی ہے کہ کہیں پر دن رات پانی ضائع ہو رہا ہے اور کہیں پر پینے کے لیے ایک گلاس پانی بھی دستیاب نہیں ہے ۔ سندھ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر کراچی میں پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے ہنگامی حالت کا اعلان کیا جائے اور سارے ہی علاقوں میں منصفانہ فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔ اس ضمن میں جو لوگ زور زبردستی کرتے ہیں اور عملے کو دیگر علاقوں کا پانی بند کر کے اپنے علاقوں میں فراہمی کے لیے مجبور کرتے ہیں ، ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے انہیں عدالت میں پیش کیا جائے ۔

بشکریہ روزنامہ جسارت

Post a Comment

0 Comments