Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی سرکلر ریلوے آخری موقع

قیام پاکستان کے بعد جب کراچی کو پاکستان کا پہلا دارالخلافہ بنایا گیا اس وقت کراچی کی آبادی ایک اندازے کے مطابق صرف ساڑھے چار لاکھ نفوس پر مشتمل تھی تاہم بھارت اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے ہجرت کرنے والے افراد کی آمد کے بعد کراچی کی آبادی میں انتہائی تیزی سے اضافہ ریکارڈ کیا جانے لگا اور 1951 کے اعداد و شمار کے مطابق صرف چار سال کے عرصے میں کراچی کی آبادی ساڑھے دس لاکھ نفوس تک پھیل چکی تھی جبکہ اگلے دس برسوں میں یعنی 1961 میں کراچی کی آبادی چھ اعشاریہ نو ملین تک پہنچ چکی تھی اور شہر میں ٹریفک کے مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے تھے، جس کے سبب اس وقت کے حکمراں صدر ایوب خان نے کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ 1962 میں پیش کیا جو سات سال کی ریکارڈ مدت میں پایہ تکمیل کو پہنچ گیا.

اس منصوبے کا افتتاح 1969 میں کیا گیا جس سے کراچی میں نہ صرف انفرا اسٹرکچر کے شعبے میں بہترین تبدیلی پیدا ہوئی بلکہ معاشی ترقی میں بھی اضافہ ہوا، کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ انتہائی کامیاب قرار پایا جس میں صرف ایک سال کے عرصے میں ساٹھ لاکھ سے زائد مسافروں نے سفر کیا اور ریلوے کے لئے زبردست منافع بھی کمایا، ابتداء میں کراچی سرکلر ریلوے کا آغاز کراچی سٹی اسٹیشن سے کیا گیا جو کراچی ڈرگ روڈ اسٹیشن تک جاتی تھی، تاہم اس منصوبے کی کامیابی کے بعد سرکلر ریلوے کو کراچی پورٹ ٹرسٹ اسٹیشن تک پھیلا دیا گیا جبکہ چند ماہ بعد ہی وزیر مینشن اسٹیشن کو بھی کراچی سرکلر ریلوے میں ضم کر دیا گیا جس سے نہ صرف عام لوگوں کو سہولت حاصل ہوئی بلکہ ریلوے کے منافع میں بھی اضافہ ہوا۔ 

صرف ایک سال کے عرصے میں کراچی سرکلر ریلوے کو نارتھ ناظم آباد تک لوپ لائن کے ذریعے ملا دیا گیا جس کے بعد ریلوے انتظامیہ صرف ایک دن میں کراچی سرکلر ریلوے پر ایک سو چار ٹرینیں چلایا کرتی تھی جس میں سے اسی ٹرینیں مین ٹریک پر چلا کرتی تھیں جبکہ چوبیس ٹرینیں لوپ لائن پر چلا کرتی تھیں یعنی پورے کراچی میں سرکلر ریلوے کا جال بچھا دیا گیا تھا، کراچی سرکلر ریلوے بہترین طریقے سے نوے کی دہائی کے آغاز تک کراچی کے عوام کو سہولتیں فراہم کرتی رہی، تاہم پھر پرائیوٹ ٹرانسپورٹ مافیا نے کراچی سرکلر ریلوے کے ملازمیں میں کرپشن کی داغ بیل ڈالی اور 1994 میں کراچی سرکلر ریلوے شدید مالی نقصان کے باعث بحران میں مبتلا ہو گئی جس کے بعد سے کراچی سرکلر ریلوے کی بہت سی ٹرینوں کو بند کرنا پڑا جو چند ٹرینیں چلتی رہیں انھیں بھی بالآخر 1999 میں بند کر دیا گیا۔

کراچی میں ٹریفک مسائل میں شدید اضافے کے بعد حکومت جاپان نے 2012 میں ایک اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کے آسان قرضے سے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا منصوبہ پیش کیا جس کے تحت کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے ساتھ مل کر کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کو دوبارہ بحال کرنا تھا، اس منصوبے کے تحت کراچی میں پچاس کلو میٹر طویل لوپ لائنوں کو بحال اور تعمیر کیا جانا تھا جس پر روزانہ چوبیس ٹرینیں چلائی جانی تھیں، جس سے سات لاکھ افراد کو روزانہ سفر کی سہولتیں میسر ہونا تھیں اور شہر بھر میں تیئس اسٹیشن تعمیر کئے جانے تھے لیکن کراچی سرکلر ریلوے کی زمینوں پر موجود قبضہ مافیا کے سبب یہ منصوبہ شروع نہیں ہو سکا.

ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق کراچی سرکلر ریلوے کی زمین جس کا رقبہ تین سو ساٹھ ایکڑ پر مشتمل ہے اس کے سرسٹھ ایکڑ پر قابضین موجود ہیں جس پر 7650 غیر قانونی اسٹرکچرز قائم ہیں جبکہ 4653غیر قانونی مکانات اور ساڑھے چار ہزار افراد غیر قانونی طور پر مقیم ہیں، تاہم اب سپریم کورٹ نے اسی سال مئی میں ایک حکم جاری کیا ہے کہ حکومت فوری طور پر قابضین سے کراچی سرکلر ریلوے کی زمین خالی کرائے اور منصوبہ شروع کرے، یہی مطالبہ حکومت جاپان نے بھی وفاقی حکومت سے کیا تھا کہ عالمی قوانین کے تحت جب تک قابضین کو عالمی قوانین کے تحت سرکلر ریلوے کی زمین سے ہٹایا نہیں جاتا اس وقت تک جاپان کے لئے ممکن نہیں کہ یہ منصوبہ شروع کر سکے جس کے بعد وفاقی حکومت نے یہ منصوبہ سی پیک میں شامل کر کے چین کے حوالے کر دیا تھا جسے بعد میں چین نے بھی شروع کرنے سے انکار کر دیا تھا.

تاہم اب ایک دفعہ پھر حکومت پاکستان نے جاپانی حکومت سے رابطہ کیا ہے کہ اس منصوبے کو جاپان آسان قرض کی سہولت کے ساتھ مکمل کرنے کے لئے تعاون کرے جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ میں وزیراعظم عمران خان کی امریکی صدر ٹرمپ سے کامیاب ملاقات کے بعد امکان ہے کہ جاپان اس منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دے گا تاہم شاید اس دفعہ جاپان کے تعاون سے منصوبہ شروع کرانے کا آخری موقع ہو کیونکہ ماضی میں بھی کبھی وفاقی حکومت کے کبھی سندھ حکومت کے اور کبھی پاکستان ریلوے کے اعتراضات کے باعث جاپان اس منصوبے سے کترانے لگا ہے۔ لہٰذا اس دفعہ حکومت کو اپنا ہوم ورک مکمل کر کے جاپان کے پاس جانا چاہئے تاکہ منصوبہ شروع بھی ہو اور مکمل بھی ہو سکے، ورنہ کراچی کے دو کروڑ سے زائد عوام ٹریفک کے شدید مسائل میں اگلے برسوں تک اسی طرح گرفتار رہیں گے جس طرح اب ہیں۔

محمد عرفان صدیقی

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments