Ticker

6/recent/ticker-posts

چودہ نشستیں دے کر بھی کراچی لاوارث

بد قسمتی سے کراچی شہر پاکستان کے اُس علاقے میں واقع ہے، جہاں کی زمین پر کبھی کوئی سبزہ نہیں اُگتا۔ یہ زمین اِک بے آب وگیاہ بیابان کی مانند ہے۔ یہ سمندر سے جڑے رہنے کے باوجود ایک بنجر ریگستان کی طرح بانجھ اور بے اولاد ہے۔ اِس کا کوئی والی اور وارث بھی نہیں ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اِس کے ساتھ زیادتیوں کا جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے وہ ابھی تک جاری ہے۔ وطن عزیز جب دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ملک کے طور پر ظہور پذیر ہوا تو یہ شہر اس کا دارالخلافہ قرار پایا۔ آخرکوئی تو وجہ ہو گی کہ قائد اعظم اور اُن کے ساتھیوں نے اِس نئے اسلامی مملکت کے لیے کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ برصغیر پاک وہند کے بٹوارے سے پہلے بھی اِس شہر کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ 

سنہ 1947ء سے لے کر 1958ء تک جب تک جمہوری حکومتوں کا سلسلہ چلتا رہا یہ شہر اِس ملک کا دارالخلافہ ہی بنا رہا لیکن غیر جمہوری حکومتوں کے معاندانہ رویوں اور آمرانہ فیصلوں نے سب سے پہلے اِس شہر سے اُس کی شناخت چھین لی اور کیپٹل کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن کراچی کو دودھ دینے والی اُس گائے کی مانند کر دیا گیا جسے زندہ رکھنے اور اس سے دودھ حاصل کرنے کے لیے دو وقت کا چارہ ڈال دیا جاتا ہے اور کچھ نہیں۔ ستر سالوں میں بے شمار جمہوری اور غیر جمہوری حکومتیں آتی گئیں لیکن کسی نے بھی کراچی شہر کے لوگوں کو اپنا بنانے کی کوشش نہیں کی۔

جمہوری ادوار میں یہاں کی صوبائی حکومت کی حکمرانی پاکستان پیپلز پارٹی کے حصے میں آتی رہی لیکن اِس پارٹی نے کبھی اُن علاقوں کا خیال نہیں کیا جن سے وہ ووٹ لے کر برسر اقتدار آتی رہی تو پھر کراچی کا خیال بھلا کیونکر کرتی۔ کراچی کے لوگوں نے تو کبھی اُسے بھرپور مینڈیٹ دیا ہی نہیں۔ یہاں ہمیشہ سے مذہبی جماعتوں کا غلبہ رہا لیکن وہ بھی جنرل ضیاء الحق کے دور تک۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنی غیر قانونی اور غیر جمہوری حکومت کو جائز اور قانونی بنانے کے لیے یہاں جب پہلے جو جمہوری انتخابات کروائے تو اِس شہر کو ایک لسانی اور علاقائی جماعت کے حوالے کر دیا۔ اُس جماعت نے اپنے ووٹروں اور اپنے چاہنے والوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جو شاید اُن کے مخالفوں نے بھی کبھی نہیں کیا ہو گا۔ 

اُس نے یہاں کے لوگوں سے اُن کا چین وسکون بھی چھین لیا۔ بزنس اورکاروبار تو غارت ہوا ہی مگر ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے کے مابین دوستی اور ہم آہنگی بھی چھین لی۔ تعلیم اور ہنر مندی میں یہاں کے لوگوں کو سارے ملک میں ایک انفرادی حیثیت اور مقام حاصل تھا۔ ایم کیو ایم نے اُن سے اُن کا یہ اعزاز بھی چھین لیا۔ آئے دن کے ہنگاموں اور پرتشدد احتجاجوں نے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی ناممکن بنا دیا۔ اُس پر ستم بالائے ستم یہ کہ جبری چندے اور اغوا برائے تاوان جیسے واقعات نے ہر شریف آدمی کا جینا دوبھر کر دیا۔ اسٹریٹ کرائمز اورگن پوائنٹ پر موبائل چھینے جانے کی وارداتوں نے خوف کا ایسا ماحول بنا دیا کہ اللہ کی پناہ۔ اب تک اِس شہر میں شاید کوئی شخص ایسا بچا نہیں ہو گا جو اِس طرح کی واردات سے محفوظ رہا ہو۔ 

ٹارگٹ کلنگ اور بوری بند لاشوں کا سلسلہ بھی ایسے ہی دورکی خوفناک یادیں ہیں جب دن بھر میں دس سے پندرہ افراد مارے نہ جائیں تو اِن نامعلوم قاتلوں کو سکون نہیں ملتا تھا۔ پچیس تیس سالوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اِس طویل دور میں جمہوری حکومتیں بھی آتی رہیں اور غیر جمہوری حکومتیں بھی لیکن کسی نے کراچی والوں کی اِس مصیبت کا مداوا نہیں کیا۔ کراچی والوں کے مسائل کا صحیح طور پر کسی کو ادراک ہی نہیں ہے۔ کچرا اور غلاظت تو صرف ایک ایشو ہے۔ یہاں پانی ، سڑکوں اور ٹرانسپورٹ سمیت لاتعداد حل طلب مسائل ہیں جن سے کراچی والوں کو نجات دلانا ہر حکومت کا فرض بنتا ہے۔ چاہے وہ صوبائی حکومت ہو یا پھر وفاقی حکومت۔ گرین بس منصوبہ بھی دیکھا جائے تو تاخیر کے سبب اِس کی لاگت اب بڑھ چکی ہے تو یہ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے کہ جلد از جلد کراچی والوں کا یہ ایک منصوبہ تو مکمل کر کے دکھائیں۔

سرکلر ریلوے کی بحالی بھی ایک عرصے سے کھٹائی میں پڑی ہوئی ہے۔ کبھی اِسے جاپانی کمپنی کے تحت شروع کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں اورکبھی اِسے سی پیک منصوبوں میں شامل کرنے کی تجویز دی جاتی ہے۔ دیگر اداروں نے بھی اپنے طور پر اِس ضمن میں کوششیں کر کے دیکھ لیں ، سب کی سب رائیگاں گئیں۔
صوبائی اور وفاقی حکومت کوئی بھی اِس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ کبھی کہا جا تا ہے کہ یہ اب قابل عمل نہیں رہا کیونکہ اُس ٹریک پر گرین بس منصوبے سمیت کئی تعمیرات ہو چکی ہیں ، انھیں مسمار نہیں کیا جا سکتا ہے اورکبھی کہا جاتا ہے کہ ٹریک پر تجاوزات قائم ہو چکی ہیں جنھیں ہٹانے یا بیدخل کرنے سے شہر میں امن وامان کا مسئلہ بن سکتا ہے۔ 

دوسرے جانب ریلوے منسٹر بھی انجن اور بوگیاں فراہم کرنے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔ لہذا اِس پر مزید بات نہیں ہو سکتی۔ اِن تمام نالائقیوں اور نااہلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ بات بلاتردد و پس وپیش کہہ سکتے ہیں کہ کراچی کی بجائے یہ مسائل اگرلاہور شہر کے ہوتے تو کب کے حل ہو چکے ہوتے۔ وہاں میٹرو بھی اپنے مقررہ وقت میں بنا دی گئی اور اورنج ٹرین بھی اب شروع ہونے والی ہے۔ وہاں پانی اور صفائی ستھرائی کے بھی مسائل ایسے نہیں ہیں جیسے کراچی والوں کے مقدرکا حصہ بنا دیے گئے ہیں۔ 14 نشستیں دے کر بھی یہ شہر لاوارث اور بے آسرا ہی رہا۔

ڈاکٹر منصور نورانی 

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments