اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے بزرگ افراد کی مناسب دیکھ بھال اور انہیں کسی بھی قسم کی پریشانی لاحق ہونے سے بچانے کے لیے ان کی ذہنی، جسمانی، معاشرتی اور نفسیاتی بہبود کے لیے جو فریم ورک بنا رکھا ہے، یہ دین اسلام کے چارٹر میں نمایاں طور پر پہلے سے موجود ہے۔ اسلامی مملکت ِخداداد پاکستان میں بزرگوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے قانون سازی کی ضرورت کا پیش آنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معاشرے میں بزرگ افراد سے متعلق ناپسندیدہ واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے یا اس سے پہلے کہ صورت حال میں شدت آئے متعلقہ قوانین کا ہونا ضروری ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بزرگوں کا خیال نہ رکھنے والی اولاد کے لیے سزا اور جرمانے کا تعین کرنے سے متعلق بل متفقہ طورپر منظور کر لیا ہے جس کے تحت معمر والدین اور بزرگوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے 6 ماہ میں ویلفیئر کمیشن قائم کیا جائے گا۔ کمیشن از خود اس بات کا نوٹس لے سکے گا کہ کوئی اولاد انسانی حقوق کے چارٹر کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہی، اور اگر کہیں ایسا ہے تو قانون کی رو سے مجبور والدین کمیشن کو خط لکھ سکیں گے، ٹیلی فون پر شکایت کر سکیں گے یا رپورٹ درج کرا سکیں گے جس کے بعد متعلقہ افراد کو اخلاقی طورپر سمجھانے کی کوشش کی جا ئے گی، بصورتِ دیگر کیس بنا کر انہیں قانون کی گرفت میں لایا جائے گا۔
یہ کیس فرسٹ کلاس مجسٹریٹ سنے گا اور اس کی اپیل سیشن کورٹ میں ہو سکے گی۔ قصور وار ہونے کی صورت میں ملزم کو 25 ہزار روپے جرمانہ اور ایک ماہ قید کی سزا دی جا سکے گی۔ والدین کی دیکھ بھال اولاد کی ذمہ داری تصور ہو گی اور وہ ان کا ماہانہ خرچ بھی اٹھائے گی۔ بزرگ والدین کو اپنی اولاد سے شکایات ہوں یا نہ ہوں لیکن معاشرے میں متذکرہ قانون کا موجود ہونا ہر لحاظ سے ضروری ہے۔
0 Comments