دو ڈھائی کروڑ آبادی رکھنے والا کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے۔ دنیا میں اس جیسے دیگر شہروں میں معیار ِ زندگی اس قدر بلند ہے کہ اُن میں سے کسی بھی شہر کے ساتھ کراچی کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔ ہاں البتہ بھارت کا ممبئی ایک ایسا شہر ہے جس کے ساتھ کراچی کا تقابلی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ اتفاق سے یہ دونوں شہر ایشیا بلکہ برصغیر میں ہی ہیں۔ ممبئی کی صورتحال ، آبادی ، قدامت اورمعیار ِ زندگی تقریباً کراچی جیسا ہی ہے لیکن اُن میں سے بھی ممبئی کئی چیزوں میں کراچی سے بہتر ہے ۔ ممبئی کا ڈرینیج نظام کراچی کی طرح 100 سال سے زیادہ پرانا ہونے کے باوجود کراچی سے لاکھ گنا بہتر ہے ۔ انڈر گراؤنڈ نکاسی ِ آب کے نظام میں وہاں کئی مرتبہ ترامیم کی گئی ہیں لیکن اس کا بنیادی ڈھانچہ ایسا وسیع ، مضبوط اور میکنائیزڈ رکھا گیا ہے کہ 3 کروڑ آبادی تک پہنچنے پر بھی اس نظام کی فعالیت قابل دید ہے ۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اب بھی مزید 25، 30 سال تک بڑھنے والی آبادی کا بوجھ برداشت کرنے کی گنجائش رکھتا ہے ۔ حالانکہ ممبئی کو سنبھالنے والے بھی کوئی فرشتے نہیں ہیں ۔ رشوت ، کرپشن ، کالابازاری ، ملاوٹ وغیرہ ہماری طرح وہاں بھی عام ہے ، اُس کے باوجود وہاں بنیادی سہولیات کی فراہمی کی حالت کراچی سے قدرے بہتر ہے ۔ کراچی کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس شہر کو کوئی بھی اون نہیں کرتا۔ حکومت اور سیاسی جماعتوں کی طرح کراچی کے عوام بھی عملی طور پر کراچی کو اون نہیں کرتے۔ صفائی ستھرائی کا تو یہ عالم ہے کہ بالکونیوں سے کچرے کی تھیلیاں نیچے بنا دیکھے یوں پھینکی جاتی ہیں کہ گویہ نیچے راہ گذر نہیں بلکہ کچرہ کنڈی ہے ۔ پھر پھینکتے ہوئے یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ بچوں کے پیمپرز سے بھری کچرے کی یہ تھیلی کسی گاڑی پر گری یا کسی راہگیر کے سر پر ۔ یہ حرکت تقریباً سبھی کرتے ہیں اور مزے کی بات سب کے سب اس حرکت کو برا بھی سمجھتے ہیں ۔
یہاں انتظامی کارکردگی کی تو خیر کیا ہی بات ہے ۔ میونسپل کی بنیادی ذمے داری کا کام بھی میونسپل اداروں سے درست طریقے سے نہ ہو پایا ۔ بالآخر دوسرے ملکوں کی طرح یہاں بھی کچرہ اُٹھانے کا کام نجی کمپنیوں کے حوالے کیا گیا ۔ پھر بڑی بڑی باتیں کی گئیں کہ اس کچرے سے ہم بجلی و متبادل توانائی کے پروجیکٹ چلائیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ اس نام پر صوبائی سطح پر سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ تشکیل دیا گیا ۔ اب اس کا بننا کیا تھا، میونسپل عملے کی جیسے ذمے داری ہی ختم ہو گئی ۔ انھوں نے شہر کی صفائی ستھرائی سے تقریباً ہاتھ ہی اُٹھا لیا ۔ حالانکہ سالڈ ویسٹ فقط بڑی بڑی جگہوں پر جمع شدہ کچرہ اُٹھانے کے لیے بنا ہے ، جب کہ گلیوں میں، بازاروں اور سڑکوں پر جھاڑو لگانا اور وہاں سے کچرہ اُٹھا کر مخصوص مقامات تک پہنچانا میونسپل عملے کا کام ہے ۔ جس کے لیے یونین کونسل سے ڈسٹرکٹ کونسلز کی سطح تک کا وسیع ترین نیٹ ورک شہر میں موجود ہے لیکن یہ نیٹ ورک اور ان اداروں کے ملازمین فقط تنخواہ لینے کے وقت یا پھر سیاسی جماعتوں کے جلوسوں میں ہی متحرک نظر آتے ہیں ، ورنہ تو ان کا وجود کراچی میں کہیں نظر نہیں آتا۔
پھر شہر میں 40 کے قریب ارکان ِ سینیٹ و قومی اسمبلی ہیں ، 55 سے زائد ارکان صوبائی اسمبلی ، 6 ڈسٹرکٹ کونسلز کے چیئرمین، 6 ڈپٹی کمشنرز، ایک کمشنر ، شہر کا میئر و ڈپٹی میئر ، صوبائی اور وفاقی حکومتوںمیں شامل وزراء کی فوج موجود ہے لیکن وہ اس شہر کے مسائل حل نہیں کر سکے ۔ حل کرنا تو دور بجا طور پر شہر ِ قائد کے مسائل کو اُجاگر بھی نہیں کر پائے ۔ اگر کبھی کسی فورم پر شہر کے مسائل کی بات ہوئی بھی تو وہ محض سیاسی اسکورنگ سے آگے نہ بڑھ سکی ۔ شہر کے میئر موصوف ہیں تو اربوں روپے کا بجٹ اور تمام تر ذاتی و دفتری لگژری سہولیات اُٹھانے کے باوجود صرف یہ کہنے کے لیے موجود رہتے ہیں کہ اُن کے پاس اختیارات نہیں ہیں ۔ اب اُن سے کوئی پوچھے کہ شہر کی صفائی ستھرائی کے لیے اُن کو میونسپل بلکہ میٹرو پولیٹن سطح کے تمام اُمور کو سیاہ و سپید کرنے کے اختیارات تو حاصل ہیں ، اس سے زیادہ آپ کو شہر کی صفائی ستھرائی کے لیے کیا درکار ہے ؟ اورپھر اگر اختیارات نہیں ہیں تو گذشتہ 4، 5 سال سے اس نشست پر رہ کر آپ کیا کررہے ہیں ؟
دوسری جانب صوبائی حکومت سے جب شہر کی مخدوش حالت پر بات کرو تو وہ ہمیشہ اربوں کھربوں کے حساب بتانا شروع کر دیتے ہیں کہ شہری حکومت اور میئر کو اتنا دیا ، اتنی سڑکیں ، اتنے انڈر پاس بنائے ، اتنا ٹن کچرہ ماہانہ اُٹھایا وغیر وغیرہ وہ ایسے گنواتے ہیں جیسے یہ اُن کی ذمے داری نہ ہو بلکہ اہلیان ِ کراچی کے باپ دادا پر احسان کر رہے ہوں۔ جب کہ وفاقی حکومت نے بھی اتنے پیسے دیے ، اتنے فنڈز دیے ، یہ ہمارا کام نہیں ، یہ صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے وغیرہ وغیرہ جیسی گھسی پٹی اور رٹی رٹائی باتیں پَھر پَھر بولتے نظر آتے ہیں ۔ اُس کے بعد کوئی بھی بڑھ بولیا اُٹھ کر بے جا شور مچا کر اہلیان کراچی سے اِس کچرے کے نام پر بھی چندہ بٹور لیتا ہے اور پھر بھی شہر صاف ستھرا نہیں ہو پاتا ۔ الٹا وہ شہریوں کے مابین زبان و قومیت کے نام پر تفریق پیدا کرتے رہتے ہیں۔
دوسری طرف شہر کا تقریباً 40 فیصد رقبہ اور وسائل مختلف اداروں کے نام پر وفاق کے ماتحت ہے لیکن وہ یہاں کے مسائل پر جوابدہ نظر نہیں آتے۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ سب ایک دوسرے پر الزامات لگا کر اپنا اپنا دامن صاف بچانا چاہتے ہیں جوکہ کسی طور پر صاف نہیں ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ شہری ، صوبائی اور وفاقی حکومتیں سب کی سب یہاں برابر کی ذمے دار ہیں ، اور اگر شہر میں نظام ِ زندگی متاثر ہے یا ہورہا ہے تو یہ ان تینوں حکومتوں کی نااہلی ہے ۔ اگر یہ اپنا اپنا کام درست طریقے سے کرتے تو نہ شہر میں عوام روتے نظر آتے اور نہ ہی عدالت عظمیٰ کو اس شہر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ گذشتہ ایک ہفتے سے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر ِ قائد کے مسائل اور انتظامی ناقص کارکردگی کو لے کر روز کوئی نہ کوئی بحث ہوتی ہے ۔ عوامی مسائل پر چلنے والے ان مقدموں میں کبھی کراچی کے میئر کی سرزنش ہوتی رہی تو کبھی صوبائی حکومت اور اس کے مختلف محکموں کی نااہلی کے قصے چلتے رہے۔
خوشبوؤں اور روشنیوں کے شہر کی دل میں یادیں اور آنکھوں میں مناظر سجائے رکھنے والے اہلیان و عاشقان ِ کراچی طویل عرصہ سے کراچی کو تباہ ہوتے دیکھ کر خون کے آنسو روتے رہتے تھے لیکن نہ تو اُن کا کوئی پرسان ِ حال بنتا تھا اور نہ اُن کے درد کو کوئی آواز مل پاتی تھی ۔ اس لیے اب جو سپریم کورٹ نے کراچی کے مسائل پر مقدمے کی سماعت کے دوران سخت ریمارکس دیے تو اہلیان ِ کراچی کے دل جیسے کھل اٹھے ۔ اُن کی گونگی بن جانیوالی زبان کو جیسے کوئی توانا آواز مل گئی ۔ اُن کے دل مسرت سے باغ باغ ہونے لگے اور اُن کی آنکھوں میں یہ اُمید پیدا ہو گئی کہ کاش کراچی کے ان مسائل کے مکمل حل تک یونہی روزانہ کی بنیاد پر مقدمہ کی سماعت ہوتی رہے اور ایک دن آئے کہ جب کراچی دوبارہ اپنے’ عروس البلاد ‘ والے عروج کو پالے۔
0 Comments