مہنگائی کی سنگین تر ہوتی صورتحال نے پسے ہوئے طبقات کیلئے جینا دو بھر کر دیا ہے جبکہ متوسط طبقہ عملاً ختم ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ بجلی، گیس، پانی اور دیگر سہولتوں کے ذمہ دار ادارے عام آدمی کیلئے مشکلات میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ برسوں کی مبینہ غلط پالیسیوں کے معاشی نقصانات کورونا وبا کے باعث پھیلنے والی بیروزگاری اور عالمی کساد بازاری کے ساتھ مل کر ایسے حالات پیدا کر چکے ہیں کہ ملک میں اگر انسانی فلاح کے متعدد ادارے سرگرم نہ ہوتے تو نہیں کہا جا سکتا کہ بھوک کتنے جیتے جاگتے انسانوں کی زندگیاں نگل چکی ہوتی۔ شیلٹر ہومز اور لنگر خانوں کے قیام کے اقدامات اچھے سہی، مگر جب تک بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں، گیس کی قلت، ٹرانسپورٹ کی دشواریوں اور ضروری اشیا کی گرانی کی صورت میں عوام پر بڑھتے ہوئے معاشی بوجھ کا سلسلہ نہیں رکتا یہ کہنا کسی طور مناسب نہیں کہ سب کچھ اچھا ہے۔
زندہ رہنا غریب شہریوں کا بھی اتنا ہی فطری و قانونی حق ہے جتنا وسائل پر قابض اشرافیہ کا۔ دن رات کی محنتِ شاقہ کے باوجود جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے والا محنت کش یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ بیماری کی صورت میں اسے بیرون ملک علاج کی سہولت نہ سہی، عام اسپتال یا اپنے گھر میں ہی علاج کیلئے سستی یا مفت دوا کے حصول کی سہولت کیوں حاصل نہیں؟ ہم جس معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں اس میں با وسیلہ لوگوں کو سیاسی دبائو ڈالنے سے لے کر اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھانے تک کے ہتھکنڈوں سے سودے بازی کے مواقع حاصل ہیں۔ غریب آدمی کو سودے بازی کے مواقع حاصل نہیں مگر اسے زندہ رہنے اور ضروریات زندگی سے بہرور ہونے کا حق دیا جانا ضروری ہے۔ کئی معاملات میں حکومتی مشکلات کا سب ہی اعتراف کرتے ہیں مگر ان مشکلات کی فضا میں غریب آدمی سے مزید صبر و قناعت کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وسائل پر تصرف رکھنے والوں کی ہوسِ زر کی روک تھام کی موثر تدابیر بھی ضروری ہیں۔
0 Comments