پاکستان میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بارشوں نے ہر طرف تباہی پھیلا رکھی ہے اور اوپر سے ندی نالوں اور دریاؤں میں سیلاب کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ کراچی میں بلاشبہ غیرمعمولی بارشیں ہوئی ہیں لیکن یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ کراچی کا پورا انتظامی ڈھانچہ زمین بوس ہو چکا ہے۔ اگر کراچی کے تمام اضلاع کی انتظامیہ بشمول بلدیاتی ادارے‘ ان کے افسران اور اہلکاروں کی تنخواہوں اور مراعات کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ کئی اربوں روپے ہو گا۔ اس بحث کو ایک لمحے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ سندھ میں کون کون سی حکومت رہی اور کن کن سیاسی پارٹیوں نے کراچی پر توجہ نہیں دی ۔ غور اس بات پر بھی کیا جانا چاہیے کہ وہ سرکاری افسر اور دیگر سرکاری ملازمین جن کی تنخواہیں عوام کے ٹیکسوں سے ادا ہوتی ہیں‘ کیا انھوں نے اپنے فرائض ادا کیے ہیں ؟ ہر سرکاری افسر اور چھوٹا ملازم ‘ ان کا تعلق وفاقی اداروں سے ہو‘ صوبائی اداروں سے ہو یا ضلعی اداروں سے ہو ‘ ان تمام افسروں اور ملازمین کو کچھ نہ کچھ فرائض سونپے جاتے ہیں جو انھوں نے دوران ڈیوٹی سر انجام دینے ہوتے ہیں۔ یہ ان کی آئینی اور قانونی ذمے داری ہے۔ عوام کے ٹیکسوں سے انھیں تنخواہیں اور مراعات انھی مقاصد کے لیے دی جاتی ہیں۔
جب یہ سرکاری افسر اور اہلکار اپنی مدت ملازمت پوری کر لیتے ہیں تو انھیں ریٹائرڈ زندگی گزارنے کے لیے پنشن بھی ادا کی جاتی ہے‘ یہ بھی عوام کے ٹیکسوں سے ہی دی جاتی ہے۔ دوران سروس تنخواہ کے علاوہ انھیں میڈیکل‘ ہاؤس رینٹ کی سہولت بھی عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھی ہوئی رقم سے ہی دی جاتی ہے۔ گریڈ 17 سے گریڈ 22 تک کے ملازمین کو مزید مراعات ملتی ہیں ‘ جن میں گاڑی اور ڈرائیور ‘ پٹرول‘ مہمان نوازی کا بل ‘ ریٹائرمنٹ پر انتہائی معمولی ریٹ پر اچھی ہاؤسنگ سوسائٹی میں دس مرلے‘ ایک کنال اور دو کنال تک پلاٹ بھی دیے جاتے ہیں ۔ یہ سب کچھ بھی عوام کے ٹیکسوں سے دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے سرکاری افسروں اور ملازمین کو پبلک سرونٹ کہا جاتا ہے یعنی عوام کے ملازمین یا عوام کے خدمت گار۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ افسر شاہی اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں پبلک سرونٹ سمجھتی ہے؟ کیا آئین اور قانون نے ان پر جو ذمے داری عائد کی ہے اور اس کام کی انھیں جو تنخواہ اور مراعات ملتی ہیں‘ وہ قوم کے ٹیکسوں سے ہی ادا کی جاتی ہے۔
اب کراچی کا ہی حال دیکھ لیں ‘ کراچی شہر کی جو حالت ہے وہ پوری دنیا میں زیر بحث ہے‘ پوری دنیا میں ہماری حکومت کی کارکردگی کے بارے میں جو جو کچھ کہا جا رہا ہے ‘ وہ پاکستان کے شہری کے لیے شرمندگی کا باعث ہے لیکن افسر شاہی‘ مقتدر سیاسی قیادت کو شاید اس کا کوئی احساس نہیں اور نہ ہی انھیں کوئی ندامت محسوس ہو رہی ہے۔ کراچی شہر کی یہ حالت کس نے بنائی‘ یہ سوال اپنی جگہ سچ اور حل طلب ہے لیکن کیا کراچی کی افسر شاہی اور اس کے ماتحت انتظامیہ کا محاسبہ نہیں ہونا چاہیے۔ کراچی میں گندے نالوں اور برساتی نالوں پر بلڈنگیں کھڑی کرنے کی اجازت یقیناً کسی سرکاری ادارے نے ہی دی ہو گی۔ سرکاری زمینوں پر جو قبضے ہوئے جنھیں کراچی والے چائینہ کٹنگ کا نام دیتے ہیں ‘ وہ خواہ کسی بلڈر نے کیے ہوں یا کسی سیاستدان نے کیے ہوں لیکن اس میں افسر شاہی بھی لازمی طور پر ملوث ہوتی ہے۔ کراچی میں بے ترتیب کچی آبادیوں کا جو جنگل آباد ہوا ‘ اس کا ذمے دار جہاں سیاستدان ہیں وہاں افسر شاہی بھی ہے۔
ابھی تو حکمران بارش کا پانی نکالنے کی تگ و دو کر رہے ہیں اور اس کے لیے مختلف قسم کی دلیلیں بھی دے رہے ہیں ‘ کبھی کہتے ہیں کہ کراچی میں غیر معمولی بارشیں ہوئی ہیں ‘اس لیے سسٹم بیٹھ گیا۔ کبھی کہتے ہیں کہ سندھ کی صوبائی حکومت کی نااہلی اور کرپشن کے باعث کراچی شہر کی یہ حالت ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پی ٹی آئی اور مرکزی حکومت پر الزامات عائد کرتی ہے ‘اس شہر کے سابقہ میئربھی سندھ حکومت پر ہی الزامات عائد کرتے ہیں لیکن سوال پھر وہی آتا ہے کہ وہ بیوروکریسی جو عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں اورمراعات حاصل کر رہی ہیں ‘وہ کہاں ہیں‘ ان کے بارے میں کوئی مرکزی اور صوبائی وزیر یا سیاستدان کوئی بات کیوں نہیں کرتا۔ قانونی طور پر تو کسی بھی شہر کی صفائی کا انتظام میونسپلٹی کے پاس ہوتا ہے۔ پاکستان کے تقریباً بڑے شہروں میں کنٹونمنٹ ایریاز بھی موجود ہیں۔ یہاں بھی کنٹونمنٹ ایریاز انتظامیہ صفائی ستھرائی کی ذمے دار ہوتی ہے۔ برسراقتدار حکومتوں نے سرکاری ملازموں اور افسر شاہی سے کام کیوں نہیں لیا۔ اس کا جواب سیاسی حکمرانوں سے ضرور طلب کیا جانا چاہیے۔
پاکستان میں اگر سرکاری افسروں اور ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کا تخمینہ لگایا جائے تو سالانہ بجٹ کے حساب سے تقریباً 50 فیصد بجٹ تو انھی پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اگر وزیراعظم ہاؤس‘ وزیراعظم کی تنخواہ اور مراعات ‘صدارتی محل اور صدر مملکت کی تنخواہ اور مراعات ‘چاروں صوبوں کے گورنر ہاؤسز ‘ وزیراعلیٰ ہاؤسز کے اخراجات کو شامل کر لیا جائے تو تنخواہوں کا بجٹ مزید بڑھ جائے گا۔ مرکزی اور صوبائی وزیروں ‘مشیروں اور معاونین خصوصی حضرات کی مراعات ‘ سینیٹ ‘ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی تنخواہوں اور مراعات کو بھی شامل کیا جائے تو غیرترقیاتی اخراجات مزید بڑھ جائیں گے۔ اب عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بجٹ میں کیا بچتا ہے۔ پنجاب میں ترقیاتی بجٹ کم کر دیا گیا ہے‘ اس کمی کو بھی کامیابی بتایا جا رہا ہے ۔ جس ملک کی حکومت بارشوں اور سیلابوں سے نمٹنے کی صلاحیت نہ رکھتی ہو ‘ زلزلوں اور دیگر آفات کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ رکھتی ہو اور اس کے ساتھ معمول کی بارشوں اور سیلابوں کو بھی حکومتی اہلکار قدرتی آفت قرار دے دیں تو پھر یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوتا کہ اس ملک کے باشندوں کی زندگی کس قدر مشکل ہو گی۔
گزشتہ روز پنجاب کے پہاڑی علاقے کلر کلہار میں شدید بارشوں سے ندی نالوں میں طغیانی آ گئی اور اس سے فصلوں کو بھی نقصان پہنچا۔ خیبرپختونخوا اور ملک کے دیگر حصوں میں بھی بارشوں اور سیلاب سے بہت نقصان ہوا لیکن افسر شاہی اور حکومتی وزراء حضرات ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر بیان بازی کرنے یا ٹوئٹر پیغامات جاری کرنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ مون سون کا موسم تو اپنی قدرتی مدت پوری کر کے ختم ہو جائے گا ‘ کراچی کی گلیوں‘ سڑکوں اور گھروں میں جو پانی کھڑا ہے ‘وہ بھی نکل جائے گا یا وہیں کھڑا کھڑا سوکھ جائے گا۔ لیکن کراچی کے عام اور غریب شہری تو پہلے ہی بہت مشکل زندگی گزار رہے ہیں لیکن اب اس شہر کی اشرافیہ کو بھی تکلیف پہنچی ہے۔ وہ سڑکوں پر آئے ہیں اور مظاہرے کیے ہیں ‘لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے ‘ یہ مظاہرے وقتی ہیں اور ان کا ہدف بہت چھوٹا ہے۔
اشرافیہ کو شکر کرنا چاہیے کہ ان کے اسٹیٹس کی وجہ سے ان کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا گیا جو غریب اور عام شہری کے ساتھ ہوتا ہے۔ کراچی کی اشرافیہ نعرے بازی بھی کرتی رہی اور پولیس کے ساتھ دھکم پیل بھی کرتی رہی ‘ اس کے باوجود پولیس کا ان کے ساتھ رویہ قدر مہذبانہ تھا ‘ ان کے مسائل بھی سب سے پہلے حل کیے جائیں گے۔ ذرا سوچیے اگر کراچی کی غریب بستیوں کے مکین ایسے مظاہرے کرتے تو ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ‘پولیس نے پہلے تو انھیں سرکاری دفتروں کے سامنے پہنچنے ہی نہیں دینا تھا ‘راستے میں ہی ان کی اچھی خاصی ٹھکائی کر دی جانی تھی۔ جن جوشیلے نوجوانوں نے تھوڑی بہت زور آزمائی کی ‘پولیس نے ان کو گرفتار کر کے ان پر کارسرکار میں مداخلت ‘امن و امان میں خلل ڈالنے ‘سرکاری دفاتر پر حملہ آور ہونے سمیت دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات بھی درج کر لینے تھے ۔ اس کے بعد ان گرفتار افراد کے لواحقین نے پہلے تو پولیس اسٹیشنوں میں جا کر منت سماجت کرنی تھی اور پھر ضمانتوں کے لیے وکیلوں کے دفاتر اور کچہریوں کے چکر لگانے پڑنے تھے۔
پاکستان میں برسوں سے ایسا ہی ہوتا چلا آ ہا ہے ۔ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب اور ان کی حکومت ‘صوبائی حکومتوں خصوصاً حکومت سندھ کے کرتا دھرتاؤ کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ‘غیرترقیاتی اخراجات میں غیرمعمولی کمی کرنا ہو گی ‘عوام کو بتانا ہو گا کہ ان سے وصول کیے گئے ٹیکسوں کی رقم کہاں کہاں خرچ کی گئی ہے ‘ یہ تمام تخمینے اخراجات سرکاری ویب سائٹ پر جاری کیے جانے چاہئیں تاکہ پاکستان کا ہر شہری کمپیوٹر پر جا کر سارا حساب چیک کر سکے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر پاکستان غریب ملک ہے تو اس کے حکمرانوں کو بھی غریبانہ مراعات لینی ہوں گی۔ انھیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ کوئی بادشاہ ہیں ‘انھیں یہ سمجھنا ہو گا کہ انھیں پاکستان کے عوام نے ووٹ دے کر اس لیے منتخب کیا ہے کہ یہ لوگ ریاست پاکستان اور عوام کی بہتری کے لیے ایمانداری سے کام کریں گے۔
0 Comments