Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی کے دکھ شیئر کرنے کی ضرورت ہے

گزشتہ روز پاکستان کے دو شہروں کراچی اور لاہورکی فضائیں انتہائی مضر صحت ریکارڈ ہوئیں۔ کراچی آلودہ شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہا جب کہ لاہور تیسرے نمبر پر رہا۔ عروس البلاد، شہر قائد اور منی پاکستان کہلانے والا شہر آج گونا گوں مسائل کا شکار نظر آتا ہے۔ عام شہریوں کے دکھ بیان کرنے پر اگر قلم حرکت میں آئے تو دور جدید کی الف لیلی کی داستان تخلیق ہو جائے، اس داستان میں درد انگیزی کا پہلو اتنا زیادہ ہے کہ ہر آنکھ نم ہو ۔ تاریخ کی ورق گردانی کریں تو لوک کہانیوں کے مطابق یہاں مائی کولاچی نامی ایک خاتون نے مچھیروں کی بستی آباد کی تھی۔ آج بھی ان میں سے بیشتر افراد سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر گزر بسر کرتے ہیں، جو نسلاً بلوچ ہیں۔ پاکستان کا پہلا دارالحکومت 1960 کی دہائی میں معاشی اعتبار سے رول ماڈل تصور کیا جاتا تھا۔ دنیا کے کئی نامور ممالک کراچی کے معاشی ماڈل کو فالو کرنا چاہتے تھے، لیکن ایسا کیا ہوا کہ آج کراچی آلودہ ترین شہر بن چکا ہے۔

یہ دلگداز داستان بہت طویل ہے لیکن سچ کا سامنا کرنا ضروری ہے۔ اہل کراچی پر یہ خبر بجلی بن کر گری ہے کہ گزشتہ روز اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں کراچی پیکیج کے لیے 739 بلین روپے کے فنڈز کی فراہمی کی منظوری ملتوی کر دی گئی۔ بے تعلقی اور شان بے نیازی کے اسی چلن نے کراچی کو یقیناً یہ دن دکھائے ہیں۔ اس وقت عام شہریوں کو حد درجہ تکالیف کا سامنا ہے جیسے کہ صاف اور محفوظ پانی کی کمی، رہائش کی کمی، کچرا اٹھانے کا ناقص ترین انتظام، برساتی نالوں کی صفائی نہ ہونا، پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی، ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکیں، صحت و تعلیم کی سہولتیں ناپید، بجلی و گیس کی کمی، شہر کا بے ہنگم پھیلاؤ، شہری سیلاب کا مسئلہ اور نشیبی مقامات اور نکاسی آب مسدود کرنے والے مقامات کی نشاندہی، الغرض یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ کراچی کے مسائل پر صرف عنوانات کی پوری کتاب بن جائے۔ اس وقت شہرکا تقریباً چالیس فیصد کچرا نالوں میں پھینکا جا رہا ہے۔

شہر میں کوئی لینڈفل سائیٹ موجود نہیں جو تکنیکی تقاضوں کے مطابق ہو، عوام ہوں یا ادارے کسی کو یہ واضح نہیں کہ شہر کے کس علاقے و ضلع میں کچرا اٹھانا کس کی ذمے داری ہے؟ شہر میں کچرا کنڈیوں کا تعین ضروری ہے ساتھ ہی وہ اشیا جنھیں دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جا سکتا ہے ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس سے مقامی سطح پر آمدنی پیدا کی جا سکتی ہے۔ کراچی کی کل آبادی کا درست تعین کر کے ایک جامع پلان مرتب کرنا لازم ہو چکا ہے کیونکہ شہرکا سب سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس شہرکی آبادی کتنی ہے؟ 2017 میں کی گئی مردم شماری کے مطابق آبادی ڈیڑھ کروڑ ہے جب کہ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ آبادی ڈھائی کروڑ سے زائد ہے تو بنیادی مسئلہ یہ ہوا کہ باقی ایک کروڑ آبادی کے لیے جو وسائل درکار ہیں ان کا کیا ہو گا؟ وہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مردم شماری میں دکھائی گئی آبادی، حقیقی آبادی کے برابر نہ ہو، کراچی کا مستقل امن پاکستان کے لیے ضروری ہے، کراچی کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔

تمام ایکسپورٹ انڈسٹری کراچی میں ہی لگنی چاہیے تھی، ہم نیشن بلڈنگ میں ناکام رہے ہیں۔ عوام کے ساتھ انصاف اور ان کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ کراچی کے امن میں ہی پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی پنہاں ہے، ماضی قریب میں ہی کراچی کو روشنیوں کے شہر سے منسوب کیا جاتا تھا جب کہ اب یہ اندھیروں کا شہر بن چکا ہے۔ شہر کو ایک با اختیار مقامی حکومت کی ضرورت ہے جو اپنی آمدنی خود پیدا کر سکے، جو کنٹونمنٹ کے علاقوں اور دیگر تمام علاقوں سمیت پورے کراچی شہر کی منصوبہ بندی اور مسائل کے حل کی ذمے دار ہو مگر موجودہ صورتحال میں بلدیاتی اصلاحات کی ایک موثر تجویز کے بغیر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی اور اس کے لیے زیادہ تر کام نچلی سطح پر کرنا پڑے گا اور اس میں یونین کونسلوں کو با اختیار بنانا اور یونین کونسل کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کی تشکیل میں شہریوں کی شمولیت کی ضرورت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کوئی ایسی غائبانہ قوت موجود ہے جو کراچی کو بربادی کی طرف کھینچ رہی ہے۔

شہر مسائل کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے، انتظامی سطح پر دیکھا جائے تو ایک دوسرے کو کام نہیں کرنے دیا جا رہا ہے۔ کراچی کا نقصان پورے ملک کا نقصان ہے۔ اس کھینچا تانی سے نہ وفاقی حکومت نہ صوبائی اور نہ ہی شہری حکومت کو کوئی فائدہ ہو گا۔ یہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ جُڑیں اور کراچی کے مسائل حل کریں۔ کراچی پاکستان کا اہم ترین شہر ہے، کراچی آباد ہو گا صاف ستھرا ہو گا تو ہی پاکستان بھی ترقی کرے گا۔ شہر میں منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کے لیے مناسب اعداد و شمار جمع کرنے، ماہرین کی تحقیق اور اس طرح کے اقدام کے لیے، عوامی شرکت کی بھی ضرورت ہے جس میں مطلوبہ فنڈز اور ماہرین کی نمایندگی ہو کیونکہ تازہ ترین دستاویزات و تحقیق کی عدم موجودگی میں کوئی منصوبہ بندی اور انتظامی اسکیم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ماضی میں بنائے گئے منصوبوں میں عوامی شرکت کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایک طرف شہر میں بی آر ٹی منصوبے بنائے جا رہے ہیں تو دوسری طرف عوام پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں۔

اس کے ساتھ ہی تمام منصوبوں میں استحکام کو مدنظر رکھنا ضروری ہو گا۔ کیونکہ ماضی قریب میں کراچی گرین لائن بس سروس اور پینے کے پانی کے لیے کے فور جیسے کئی منصوبے بنائے گئے مگر وہ مستحکم نہ ہونے کے سبب جاری نہ رہ سکے اور بنیادی طور پر عوامی پیسہ ضایع ہوا۔ کراچی کے لیے وفاقی حکومت نے گیارہ سو ارب کے پیکیج کا اعلان کیا، یہ شہر کے تن مردہ میں روح پھونکنے کے مترادف اعلان تھا، لیکن ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے، وفاق اور سندھ کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ تک نہیں ہے۔ کراچی کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ چودہ نشستیں جیتنے والی تحریک انصاف مرکز میں بھی برسر اقتدار ہے، جب کہ ماضی کی جمہوری اور آمرانہ حکومتوں میں یہ شہر اپوزیشن کی متعدد تحریکوں کا مرکز رہا ہے، لیکن آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہر کو وفاق نے بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔ کراچی جو غریب پرور شہر تھا، اب اس میں عام آدمی کا دم گھٹتا ہے، لیاری کا تو وفاقی و صوبائی حکومت نام لینا بھی گوارا نہیں کرتیں، وہاں گینگ وار کی دوبارہ آمد کے قصے عام ہیں، بدترین لوڈ شیڈنگ ہے، سانس لینا دوبھر ہو گیا ہے۔ روزگار کے مواقعے ختم ہو رہے ہیں، ضرورت اس امرکی ہے کہ کراچی کو مکمل تباہی و بربادی سے بچانے کے لیے اسٹیک ہولڈر سر جوڑ کر بیٹھیں اور شہرکو بچانے کی تدبیر کریں۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Post a Comment

0 Comments