Ticker

6/recent/ticker-posts

بلدیاتی انتخابات، التوا کے نقصانات

بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ خوش آیند ہے کہ الیکشن کمیشن 3 دسمبر تک کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کرے اور بلدیاتی انتخابات کے لیے ساٹھ دن میں تمام اقدامات مکمل کرے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کے لیے سیکیورٹی اور تمام سہولتیں دینے کی پابند ہے، چیف سیکریٹری اور آئی جی سندھ ضروری اقدامات کے پابند ہوں گے۔ عدالت نے ایم کیو ایم کے اس استدعا اور موقف کو کمزور اور بے جان قرار دیا ہے، جس میں ایم کیو ایم نے قانون سازی، حلقہ بندیوں، ووٹر لسٹوں کی درستگی اور بلدیاتی اداروں کو اختیارات ملنے تک الیکشن نہ کرانے کی تجویز دی۔ خیال رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کی درخواستوں پر یہ فیصلہ سنایا ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ ڈھائی برس سے سندھ میں بالخصوص کراچی میں ممکنہ بلدیاتی انتخابات نزاع کے عالم میں ہیں۔ آئیے! اس ضمن میں اب تک کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔

بلدیاتی انتخابات سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر سندھ میں 2015 میں منعقد ہوئے تھے جن کی میعاد 30 اگست 2019 کو ختم ہوئی، جس کے بعد قانون کے مطابق 120 دن کے دوران دوسری مدت کے لیے بلدیاتی انتخابات ہونے چاہیے تھے لیکن ایسا نہیں ہو سکا البتہ سندھ کے بلدیاتی اداروں کو کمشنر و ڈپٹی کمشنرز کے ماتحت کیا گیا اس دوران پہلے سے کی گئی مردم شماری کے غیر حتمی نتائج کا اعلان کیا گیا، جس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا اور مطالبہ کیا گیا پہلے ازسرنو قومی مردم شماری کرائی جائے یا اس پر نظر ثانی کی جائے پھر بلدیاتی انتخابات منعقد کیے جائیں، کافی عرصے تک یہ معاملہ زیر بحث رہا، پھر تحریک انصاف کی حکومت اور ایم کیو ایم کی سیاسی توڑ جوڑ کے تحت قومی مردم شماری کا حتمی نتائج کا اعلان کیا گیا۔ ایک وقفہ کے بعد سندھ میں ایم کیو ایم نے حلقہ بندیوں پر اعتراضات کیے جیسے تیسے کر کے یہ حلقہ بندیاں برقرار رکھی گئیں، لیکن کراچی اور حیدرآباد کے سطح پر ایم کیو ایم نے ان حلقہ بندیوں کی درستگی کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔ 

اس دوران بلدیاتی ادارے سرکاری افسران کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوتے رہے، جس کے نتیجے میں سندھ کھنڈر بن گیا بالخصوص کراچی کی خوب صورتی، بدصورتی میں تبدیل ہو گئی۔ کراچی کے بلدیاتی اداروں میں مقامی افسران کے بجائے اندرون سندھ کے افسران تعینات کیے گئے جنھوں نے شہر کراچی کے بلدیاتی مسائل حل کرنے کی آڑ میں اپنی تجوریاں بھریں، لوگوں کے بنیادی مسائل کا انبار لگ گیا، کمشنرز و ڈپٹی کمشنرز سے عام افراد مل نہیں سکتے تھے اور نہ ہی یہ افسران اپنے دفاتر سے نکل کر لوگوں کے مسائل معلوم کرتے تھے۔ کراچی کے بلدیاتی اداروں میں ایک بادشاہت قائم ہو چکی تھی جس کے نتیجے میں کراچی کچرا کنڈی بن گیا، بارشوں کے دنوں میں کراچی ڈوب گیا، گٹر ابلتے رہے، کھلے گٹروں میں لوگ گرتے رہے، کراچی میں آوارہ کتوں کی بہتات رہی، لوگ سگ گزیدگی کا شکار ہوتے رہے، گلیاں اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی، تجاوزات کا سلسلہ نہ رک سکا، بے دردی سے کراچی میں درخت کاٹے گئے، اب حالت یہ ہے کہ شہر کراچی کا شمار آلودہ ترین شہروں میں پہلے نمبرز پر ہے، اس کامیاب سازشی منصوبے کے بعد کراچی کے بلدیاتی اداروں سے کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز کو ہٹا کر بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ایڈمنسٹریٹر ایک سیاسی شخصیت کو بنا دیا گیا لیکن تب تک کراچی تباہ و برباد ہو چکا تھا۔

قبل ازیں سندھ حکومت نے نیا بلدیاتی نظام لانے کا اشارہ دیا، کافی عرصے بعد کراچی میں ٹاؤن نظام لانے کا اعلان کیا گیا اس پر بھی اختیارات میں کمی بیشی پر اعتراضات اٹھائے گئے کافی بحث و مباحثے کے بعد اس میں کچھ تبدیلی کی گئی لیکن تسلی نہیں کی گئی۔ اس دوران ایم کیو ایم کے دائر کردہ کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنا دیا اور بااختیار بلدیاتی نظام نافذ کرنے کا حکم دیا لیکن سندھ حکومت اس پر عمل درآمد کرنے کے بجائے خاموش رہی، معاملہ جوں کا توں برقرار رہا وقت گزرتا رہا پھر ملک میں تحریک انصاف کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس کے تحت ایم کیو ایم، تحریک انصاف کی اتحادی حکومت سے الگ ہوئی اور ایک معاہدے کے تحت پی ڈی ایم حکومت کا حصہ بن گئی، لیکن اسے گلہ رہا کہ اس سے کیے گئے معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے جس میں سے ایک شق سندھ میں بااختیار بلدیاتی ادارے قائم کرنا بھی شامل ہے۔

اس سے پہلے جماعت اسلامی بھی بااختیار بلدیاتی نظام لانے کا مطالبہ کرتی رہی، جس کے لیے اس نے طویل دھرنا دیا اور بالآخر سندھ حکومت کو جماعت اسلامی سے بااختیار بلدیاتی نظام لانے کا معاہدہ کرنا پڑا۔ وقت پھر گزرتا رہا سندھ حکومت بلدیاتی قوانین بنانے میں غیر سنجیدہ رہی پھر آخرکار جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کو عدالت سے رجوع کرنا پڑا کہ عدالت سندھ حکومت کو بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دے۔ اب اس کیس کا فیصلہ محفوظ ہے اس دوران سندھ حکومت نے اندرون سندھ میں پہلے مرحلے میں بلدیاتی انتخابات کرائے جہاں اسے بھاری اکثریت حاصل ہوئی۔ دوسرے مرحلے میں 24 جولائی 2022 کو کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات ہونے تھے کہ اس دوران ملک میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ کراچی میں بھی عین اسی دن بارش ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا جس دن یہ انتخابات ہونے تھے اور واقعی اس روز تیز بارش ہوئی تھی سو الیکشن کمیشن نے یہ انتخابات ملتوی کرتے ہوئے 30 اگست کو کرانے کا اعلان کیا لیکن بارشیں ایسی برسیں کہ اندرون سندھ کے علاقے دریا کا منظر پیش کرنے لگے، بدترین سیلاب نے گاؤں کے گاؤں تباہ کر دیے۔

اس تناظر میں الیکشن کمیشن نے حیدرآباد کو چھوڑ کر صرف کراچی میں 23 اکتوبر 2022 کو بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا جہاں حالات بہتر تھے تو بعد میں الیکشن کمیشن نے سندھ حکومت کی اس درخواست پر یہ انتخابات ملتوی کیے کہ سندھ میں سیلاب کی صورتحال تباہ کن ہے جس تناظر میں کراچی میں بھی یہ انتخابات ممکن نہیں ہے۔ ملک میں خاص طور پر اسلام آباد میں عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو حفاظتی معاملات کے لیے سندھ پولیس کی 6 ہزار نفری کی خدمات وفاق نے حاصل کیں جو ابھی تک اسلام آباد میں ہیں۔ ادھر الیکشن کمیشن کوشش کرتا رہا کہ کسی نہ کسی طرح کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہو جائیں لیکن ہر بار سندھ حکومت یہی کہتی رہی کہ اس کے پاس پر امن بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے مطلوبہ پولیس دستیاب نہیں ہے۔ ادھر سندھ ہائی کورٹ میں بھی کراچی میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی سماعت ہوتی رہی اور بالآخر الیکشن کمیشن اور سندھ ہائی کورٹ نے مکمل سماعت کے بعد اپنے اپنے فیصلے محفوظ کیے۔ ان میں سے الیکشن کمیشن اپنا فیصلہ 22 نومبر کو سنانیوالا ہے۔ امکان ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے کا حتمی اعلان کرے گا۔

شبیر احمد ارمان  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Post a Comment

0 Comments