کراچی میں نیا میئر کوئی بھی منتخب ہو میری تو بس چند معصومانہ سی خواہشات ہیں، اگر پوری ہو سکیں۔ اس عروس البلاد میں بس کچھ ایسا ہو جائے کہ اس شہر کے باسیوں کو پانی ٹینکروں کے بجائے نلوں سے ملے، کچھ مناسب سی ٹرانسپورٹ ہو، غیر قانونی تجاوزات ہٹا کر سڑکیں کشادہ کر دی جائیں اور کوئی بیٹا بیٹی کسی ’’اسٹریٹ کرمنل‘‘ یا پولیس کے ہاتھوں نہ لٹے، جان کی بازی نہ ہار جائے، گھر واپسی پر کسی کھلے ’’گٹر‘‘ میں نہ گر جائے۔ باقی آپ جانیں اور آپ کی سیاست۔ اب بھی یقین نہیں کہ سندھ کے دو بڑے شہروں کراچی اور حیدرآباد میں واقعی بلدیاتی الیکشن 15 جنوری کو ہی ہو رہے ہیں کہ یہاں الیکشن کا حال بھی رویتِ ہلال کمیٹی کے اعلان کی طرح ہے کہ رات گئے تک پتا نہیں چلتا کہ دوسرے روز عید ہے کہ روزہ۔ سندھ میں بلدیاتی الیکشن کے اس دوسرے مرحلے کے بعد یہ واضح ہو جائے گا کہ شہری سندھ میں حق حکمرانی کس کے ہاتھ آتا ہے اور پہلی بار1987ء اور 2001ء کے بائیکاٹ کے بعد متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) میئر کراچی کی دوڑ سے باہر نظر آرہی ہے اور مقابلہ بظاہر پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے درمیان نظر آتا ہے، جن میں سے عین ممکن ہے کوئی دو جماعتیں یوسی کے الیکشن کے بعد اتحاد کر لیں۔
اصولی طور پر بلدیاتی الیکشن ہر چار سال کے بعد ہونے چاہئیں اور جیسے ہی مدت پوری ہو 90 روز کے اندر، اندر یہ عمل پورا ہونا ضروری ہے مگر ہر بار ’’نظریۂ ضرورت‘‘ آڑے آجاتا ہے، ایسا ہی کچھ 2020ء کے بعد ہوا۔ ہمارے ہاں معاملہ چاہے مردم شماری کا ہو یا حلقہ بندیوں کا، سیاسی مصلحتیں آئینی عمل کو روک دیتی ہیں، ورنہ آج اس شہر کی آبادی سرکاری طور پر تین سے ساڑھے تین کروڑ ہوتی۔ کراچی ہمیشہ ہی نشانے پر رہا ہے۔ اختیارات کا تعلق بھی ’’نیت‘‘ سے ہے، پاکستان کے ’’معاشی حب‘‘ کو جس طرح تباہ کیا گیا، اس کی بنیادی ذمہ داری اس سوچ پر ہے جس نے جگہ جگہ رکاوٹ کھڑی کی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ شہر چلتا ہے تو ملک چلتا ہے، یہ رُکتا ہے تو سب کچھ ٹھپ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اب تو یہ ’’شہرِ مافیا‘‘ ہے، آپ نام لیتے چلے جائیں آپ کو ہر جگہ ایک مافیا نظر آئے گی، بڑی مافیا کو تو ایک طرف رکھیں یہاں تو گاڑیاں سڑکوں پر دھونے والوں سے لے کر بھیک مانگنے والوں تک کے منظم گینگ ہیں۔
پھر ٹینکر، پولیس، کے ایم سی، کے ڈی اے، واٹر بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اور ان سب کی سرپرست ہماری سیاسی مافیا چاہے وہ صوبائی حکومت ہو یا شہری۔ کیا نئی بلدیاتی قیادت ماضی سے کچھ مختلف کر پائے گی کیونکہ اس شہر کے میئر کا اختیار 34 فیصد کراچی پر ہی ہوتا ہے، اب 6 کنٹونمنٹ بورڈ، پھر DHA، پھر وفاق کے زیر اثر زمینیں، ایسے میں پتہ نہیں ہم اس معصوم کو کیوں ’’شہر کی کنجی‘‘ تھما دیتے ہیں جو صرف اپنے زیر استعمال تالے ہی کھول سکتا ہے۔ بلدیاتی الیکشن مہم آخری مراحل میں ہے اور بظاہر دوڑ پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور پی پی پی میں ہے، اب اگر ایم کیو ایم اتحاد کی کوئی شکل نکالتی ہے تو وہ میئر کی ریس میں تو شاید نہ ہو، البتہ وہ بائیکاٹ نہیں کرتی اور میدان خالی نہیں چھوڑتی تو کسی سے بھی یوسی الیکشن کے بعد اتحاد کر سکتی ہے۔ اسی طرح پاکستان تحریک لبیک بھی کئی یوسیز سے کامیاب ہو سکتی ہے۔ بہرحال ’’میئر‘‘ کی دوڑ کا اصل پتہ 15 جنوری کے بعد مخصوص نشستوں کے انتخاب کے بعد ہو گا جب تقریباً 367 ارکان پر مشتمل ہائوس مکمل ہو گا۔ اس مرتبہ پہلی بار تین نشستیں ’’ٹرانس جینڈرز‘‘ کےلئے بھی رکھی گئی ہیں۔
امیدواروں کی ریس میں پی پی پی نے اپنے امیدوار کا اعلان 15 جنوری تک موخر کیا ہوا ہے، یوسی چیئرمین کے الیکشن کے بعد یا تو ان ہی میں سے کوئی یا مخصوص نشستوں میں سے کسی کو نامزد کیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف میں فردوس شمیم نقوی، خرم شیر زمان اور علی زیدی کے درمیان مقابلہ ہے مگر غالباً پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان 13 جنوری کو جلسے میں اعلان کر سکتے ہیں، جو ان تین کے علاوہ بھی ہو سکتا ہے۔ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس کا امیدوار پچھلے دو تین سال سے عملی طور پر میدان عمل میں ہے اور وہ ان کے کراچی کے امیر حافظ نعیم ا لرحمٰن اور شاید سب سے زیادہ منظم مہم بھی انہوں نے ہی چلائی ہے۔ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ انہیں ووٹ بھی اسی انداز میں پڑتا ہے یا نہیں۔ ان کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ مقابلہ پی ٹی آئی سے ہے اور دونوں کا ووٹ خاص حد تک ایک جیسا ہے۔ بلدیاتی الیکشن کے ’’تجربے‘‘ کے پیشِ نظر پی پی پی اور ایم کیو ایم کو اس خاص الیکشن کی سائنس کا اندازہ ہے۔ متحدہ کا تو اصل وجود ہی 1987ء کے بلدیاتی الیکشن میں قائم ہوا اور اس کے بے شمار رہنما اسی نظام کی پیداوار ہیں۔
کراچی کا اصل مسئلہ ہی شہری حکومت کا ہے۔ اگر یہ شہر ایک میٹرو پولیٹن سٹی دنیا کے دوسرے بڑے شہروں کی طرح بنایا جاتا تو شاید آج کراچی کا رونا نہ رویا جارہا ہوتا۔ نئے آنے والے میئر اور اس جماعت پر بھاری ذمہ داری ہو گی۔ اگر کامیابی پی ٹی آئی کے نصیب میں آئی تو وہ آئندہ عام انتخابات میں بھی سندھ کے شہروں سے کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔ میئر جماعت کا منتخب ہوتا ہے تو یہ کم از کم یہاں کی سیاست میں جماعت کی واپسی کا راستہ ہموار کر سکتا ہے اور پی پی پی کی کامیابی کی صورت میں وہ پہلی بار شہروں میں میئر کامیاب کروا پائے گی۔ رہ گئی بات شہر کے مسائل کی تو ہم شہریوں نے انہی پتھروں پر چلنے کی عادت ڈال لی ہے کیونکہ گھر کے راستے میں کہکشاں تو کیا ہو گی کھلے گٹر ضرور ملیں گے۔ نو منتخب میئر اور367 ارکان پر مشتمل کے ایم سی کا ہائوس بس اتنا کر لے کہ شہر کی سڑکیں کشادہ ہو جائیں جو تجاوزات اور بے ڈھنگی پالیسیوں کے باعث اربوں روپے لگانے کے بعد بھی کھنڈر بنی ہوئی ہیں۔ باقی مقابلہ درجنوں مافیاز سے ہے، بس آپ کو صرف اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔
0 Comments