Ticker

6/recent/ticker-posts

بابائے کراچی نعمت اللہ خان کے دور نظامت کو آج بھی کیوں یاد کیا جاتا ہے؟

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی بات کریں تو سنہ 2001 سے 2010 تک کے دور کی مسائل کے حل اور ترقیاتی کاموں کے لیے مثال دی جاتی ہے۔ ان نو برسوں میں کراچی میں تعلیم، صحت، ٹرانپسورٹ، پارک اور میدانوں کی تعمیر سمیت پانی کے ایسے منصوبے لائے گئے جس نے چند برسوں میں اسے ملک کا بہترین شہر ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے بہترین شہروں کی فہرست میں نمایاں مقام پر پہنچا دیا۔ سابق فوجی ڈکٹیٹر اور صدر پرویز مشرف کی آمریت کے دور میں سنہ 2001 میں کراچی میں بلدیہ عظمیٰ کا نیا نظام متعارف کروایا گیا۔ اس نظام کے تحت شہر میں 18 ٹاؤنز بنائے گئے اور نظامت کا نظام رائج کیا گیا۔ اس نظام کے تحت ہونے والے انتخابات میں سندھ کے شہری علاقوں کی مقبول جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے حصہ نہیں لیا اور جماعت اسلامی نے شہر کے بیشتر ٹاؤنز میں کامیابی حاصل کی، اور نعمت اللہ خان کو کراچی کا ناظم منتخب کیا۔ نعمت اللہ خان کا تعلق انڈیا کے شہر اجمیر شریف کے علاقے شاہجہاں پور سے تھا۔ وہ سنہ 1948 میں انڈیا سے ہجرت کر کے کراچی میں آباد ہوئے۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سابق سینیئر ڈائریکٹر اور ’بلدیہ عظمیٰ کراچی سال بہ سال‘ سمیت شہری معاملات پر کئی کتابوں کے مصنف بشیر سدوزئی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے دھیمے لہجے اور شائستہ انداز گفتگو کو نعمت اللہ خان کا خاصہ قرار دیا۔ ان کے دور نظامت میں ان کے ساتھ کام کرنے والے بشیر سدوزئی کا کہنا تھا کہ ’پیار اور محبت کے انداز میں مخالفین کو اپنا بنانے والے نعمت اللہ خان انتظامی معاملات میں رتی برابر بھی کوتاہی برداشت نہیں کرتے تھے۔ دفتر وقت پر آتے اور عملے کو سونپے گئے کام کی مکمل خبر گیری کرتے تھے۔‘ خیال رہے کہ سندھ کے شہری علاقوں میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے ہیں۔ شہری علاقوں کی مضبوط سمجھی جانے والی جماعت ایم کیو ایم نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا ہے جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف شہر میں میئر بنانے کی دوڑ میں پیش پیش ہیں۔

کراچی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار رفعت سعید نے کہا کہ ’کراچی کے میئر بننے والے پر بھاری ذمہ داری ہوتی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے کئی ممالک سے بڑا یہ شہر اپنا ایک خاص مزاج رکھتا ہے۔ یہاں ماضی میں تعمیر و ترقی کی مثالیں قائم کرنے والے میئر سے بڑھ کر کام کرنا ایک امتحان ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ’سنہ 80 کی دہائی میں عبدالستار افغانی اور ان کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کا دور شہر کی بہتری کے اچھا دور مانا جاتا ہے۔ تاہم طویل وقفے کے بعد سنہ 2001 میں کراچی کی نظامت سنبھالنے والے نعمت اللہ خان نے کراچی کی ترقی کا ایک نیا سفر شروع کیا۔ ان کے دور میں شروع ہونے والے کئی منصوبے ان کے بعد منتخب ہونے والے ناظم سید مصطفیٰ کمال کے دور میں مکمل ہوئے۔ اور اس دور کو کراچی کا سنہرا دور سمجھا جاتا ہے۔‘ ’شہر میں اتنے مثالی کام پائے تکمیل کو پہنچے کہ انگریز دور کی یاد تازہ ہو گئی۔ تاہم مصطفیٰ کمال کے بعد منتخب ہونے والے میئر وسیم اختر شہر کی تعمیر و ترقی میں وہ کردار نہیں ادا کر سکے جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں ایم کیو ایم کا تنظیمی بحران اور میئر کی صوبائی حکومت سے چپقلش شامل ہیں۔‘

رفعت سعید کا کہنا تھا کہ ’نعمت اللہ خان نے کراچی میں تعمیر و ترقی کے ایسے سفر کا آغاز کیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ شہر کے 18 ٹاؤنز میں ایک ایک ماڈل پارک کا ایسا پروگرام پیش کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے شہر میں ایک کے بعد ایک پارک اور پلے گراؤنڈ آباد ہونے لگے۔‘ ’ٹرانسپورٹ کے سنجیدہ مسئلے کے حل کے لیے میدان میں نکلے تو اربن ٹرانسپورٹ سکیم متعارف کرائی۔ بیرون ممالک سے بسیں درآمد کیں اور پرائیویٹ کمپنیوں کو بسیں چلانے کے لائسنس جاری کیے۔ شہر میں پہلی بار 500 کشادہ اور ایئر کنڈیشن بسیں سڑکوں پر لائے اور عوام کو بہترین سفری سہولیات فراہم کی۔ 470 مقامات پر خوبصورت بس شیلٹرز بنوائے۔‘ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار فاروق معین نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کی ترقی میں نعمت اللہ خان کا دور ایک مثالی دور کہلاتا ہے، اسی لیے ان کے مخالفین بھی ان کے دور کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔ ’نعمت اللہ خان کامیاب وکیل، ایک متحرک فلاحی شخصیت اور ایک بے مثال ناظم کی پہچان رکھتے تھے۔ ان کے نظامت کے دور کے بعد انہیں بابائے کراچی کے نام سے پکارا گیا۔‘

فاروق معین کے مطابق ’کراچی میں پانی کے بحران کو دور کرنے کے لیے کے تھری کا منصوبہ بھی نعمت اللہ خان کا دیا ہوا ہے۔ اس کے بعد سے اب تک شہر میں پینے کے پانی کا کوئی منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ انہوں نے بڑی شاہراہوں کو تعمیر کرایا، کروڑوں روپے کی لاگت سے چورنگیوں کی تزئین و آرائش کے بعد ان کو سگنلائزڈ کیا، اور شہر میں سڑکوں، فلائی اوورز، انڈر پاسز اور پلوں کا جال بچھا دیا، اور شاہراہوں، چوراہوں اور گلیوں میں روشنی کا بہترین انتظام کیا۔‘ تجزیہ کار فاروق معین نے کہا کہ کراچی کی ترقی میں نعمت اللہ خان کا دور ایک مثالی دور کہلاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تعلیم کے شعبے میں نعمت اللہ خان نے خاص توجہ دی اور سرکاری سکول و کالجز کی حالت کو بہتر بنایا اور تعلیمی معیار کی بہتری کے لیے خصوصی اقدامات کیے۔ بجٹ میں تعلیم کی مد میں ریکارڈ 31 فیصد رقم مختص کی۔ سکولوں کی تعمیر، پرانے سکولوں کی تزئین و آرائش اور پانی کی فراہمی کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے۔‘

’مختلف جدید ٹریننگ کورسز اور پروفیشنل ٹریننگ پروگرام میں ہزاروں اساتذہ کی تربیت کا انتظام کیا۔ تعلیمی اداروں میں سیلف فنانس سکیم ختم کر کے مرکزی داخلہ پالیسی کا نطام اپنانے کے بعد تمام کالجوں میں میرٹ پر داخلے کو یقینی بنانے کا نظام بنایا۔‘ کراچی کے سابق میئر کے حوالے سے بشیر سدوزئی نے مزید کہا کہ ’نعمت اللہ خان کی ایک پہچان ماحول دوست ناظم کے طور پر بھی کی گئی۔ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی ہیوی انڈسٹری کی شہر سے باہر منتقلی کی بھرپور مہم چلائی اور کراچی بلکہ ملک بھر میں پہلی دفعہ سی این جی پر چلنے والی بسوں کو متعارف کرایا۔ شہر کی ہریالی کو بہتر بنانے کے لیے محکمہ باغبانی کو متحرک کیا اور چار برسوں میں سینکڑوں پارکس کو ازسرنو تعمیر کرایا اور کئی پلے گراونڈز کی حالت بہتر کرائی، بیشتر میں فلڈ لائٹس کی تنصیب ہوئی، جبکہ کراچی کے 18 ٹاونز میں سے ہر ٹاؤن کو کم از کم ایک ماڈل پارک بنا کر دیا۔ یہ ماڈل پارکس ملک بھر میں اپنی نوعیت کےمنفرد پارک تھے۔‘

زین علی  

بشکریہ اردو نیوز 

Post a Comment

0 Comments