فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے پاکستان کے اقتصادی بحران پر ایک چشم کشا تجزیاتی رپورٹ جاری کی ہے جو ارباب بست و کشاد ہی نہیں پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ خاص طور پر ایسے حالات میں یہ رپورٹ اور بھی سنجیدہ غور و فکر کی متقاضی ہے کہ ایک طرف ملک کا معاشی سفینہ منجدھار کے بیچ ہچکولے کھا رہا ہے تو دوسری طرف کشتی بان اشرافیہ اقتدار کی کرسی کیلئے دست و گریبان ہے اور سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے حکومتی عہدوں پر متمکن ایک سیاسی مکتبہ فکر حالات کو اپنے فہم کے مطابق سدھارنے کیلئے قرضے پہ قرضے لے رہا ہے تو اپوزیشن کی سوچ اور کوشش ہے کہ سفینہ کل کا ڈوبتا بے شک آج ڈوب جائے مگر اسے اقتدار مل جائے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ جب سفینہ ہی خدانخواستہ ثابت و سالم نہ رہا تو اقتدار کس کام کا؟ وقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ سیاست کو عارضی طور پر ہی موقوف کر کے ملک اور اس کی اقتصادیات کو بچانے کیلئے کسی مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق کی صورت پیدا کی جائے مگر نہیں، اس حوالے سے مثبت سوچ کسی کے قریب سے گزر کر نہیں جاتی۔
سب اپنے اپنے مفادات کے پنجرے میں بند ہیں اور ایک دوسرے سے اپنے مطلب کی شرائط منوائے بغیر بات تک کرنا گوارا نہیں کرتے۔ غیر ملکی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ڈالر کی شکل میں زرمبادلہ کے ذخائر خشک ہونے سے ملکی اقتصادیات کا پہیہ جام ہو رہا ہے۔ ضروری اشیائے خوردو نوش، پیداواری عمل کیلئے لازمی خام مال اور طبی آلات سے بھرے کنٹینرز کراچی کی بندرگاہ پر رکے ہوئے ہیں کیونکہ زرمبادلہ کے بحران کے باعث مال چھڑانے کیلئے ادائیگیوں کی غرض سے ڈالر دستیاب نہیں۔ ڈالرز کی قلت کے سبب بنک درآمد کنندگان کیلئے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کھولنے کیلئے تیار نہیں، اس سے ملکی اقتصادیات پر شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ملکی معیشت کو پہلے ہی افراط زر اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے جکڑ رکھا ہے۔ شرح نمو انتہائی مایوس کن ہے۔ اسٹیٹ بینک کے پاس 6 ارب سے بھی کم ڈالر رہ گئے ہیں جبکہ اگلے تین ماہ 8 ارب ڈالرز کی ادائیگیاں باقی ہیں صرف ایک ماہ کی درآمدات کیلئے زرمبادلہ رہ گیا ہے۔ غیرملکی قرضوں کا بوجھ 274 ارب ڈالر تک بڑھ چکا ہے۔
ایسے میں آئی ایم ایف اور قرض دینے والوں کا مطالبہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر سبسڈی ختم کی جائے۔ اور تو اور زندگی کی بنیادی ضرورت آٹا بھی اتنا مہنگا اور نایاب ہو گیا ہے کہ ایک بیگ لینے کیلئے بھی لوگوں کو گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس اقتصادی زبوں حالی کی بنیادی وجہ سیاسی بحران اور بے یقینی ہے۔ روپے کی قدر مسلسل گھٹتی اور مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے۔ تباہ کن سیلاب اور توانائی بحران نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ دودھ، چینی اور دالوں سمیت ضروریات زندگی عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔ دوست ممالک اپنی اپنی بساط کے مطابق فراغ دلانہ مدد کر رہے ہیں مگر بحران ختم ہونے کے آثار پھر بھی دکھائی نہیں دیتے۔ حکومت کو یقین ہے کہ ملک ڈیفالٹ نہیں کرے گا جبکہ اپوزیشن کی خواہش ہی نہیں کوشش بھی ہے کہ ملک سری لنکا بن جائے تاکہ وہ حکومت کو رگڑا دے سکے روس سے سستی پٹرولیم مصنوعات خریدنے کیلئے معاہدے پر بات چیت ہو رہی ہے مگر سیاسی عدم استحکام، پالیسیوں میں عدم تسلسل، پیداواری شرح نمو میں تقریباً تین گنا کمی اور نجی شعبے میں پائی جانے والی بے چینی کے سبب روس بھی تذبذب کا شکار نظر آتا ہے کہ معاہدہ کرے یا نہ کرے۔ اوپر سے امریکہ کا دبائو بھی پیش نظر ہے۔ یہ صورتحال سیاسی قیادت سے تقاضا کر رہی ہے کہ اقتدار کی خواہش بجا، مگر اسے ملکی مفاد کے تابع بنائیں۔ آخری فتح اس کی ہو گی جو ملک و ملت کیلئے سوچے گا۔
0 Comments