میں نے کراچی کی ’’روشنی‘‘ بھی دیکھی ہے اور ’’اندھیرے‘‘ بھی۔ یہ جیتا جاگتا شہر اندھیروں میں کیسے گم ہوا بہت قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع ملا۔ بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جس عروس البلاد، معاشی حب میں کرکٹ کھیلی ہو، سینما گھروں اور کلبوں کا کلچر دیکھا ہو، موسیقی سے لے کر مشاعروں تک اور سیاست سے لیکر صحافت تک کی ہو وہ کراچی اس طرح ہم سے چھین لیا جائے گا کہ کچی آبادیوں کا دنیا کا سب سے بڑا شہر بن جائے گا کبھی سوچا نہ تھا۔ اب مجھے نہیں پتا 5 دسمبر سے 8 دسمبر تک آرٹس کو نسل میں ہونے والی 17 ویں عالمی اردو کانفرنس میں ’’جشن کراچی‘‘ کے عنوان سے ہم کس حد تک انصاف کر پائیںگے البتہ کانفرنس، جو خود ایک مضبوط روایت بن گئی ہے، میں اس موضوع کا انتخاب قابل تعریف ہے۔ ویسے بھی اب شہر میں ایک ہی تو ادارہ بچا ہے۔ شہروں کو نیچے سے اوپر جاتے ہوئے تو دیکھا ہے مگر جس تیزی سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر تنزلی کا شکار ہوا ہے ایسا کم ہی دیکھنے کو ملا ہے۔ یہاں صحافت کرتے اب مجھے 42 سال ہو چکے ہیں اور یقین جانیں اُس میں سے کوئی 25 سال اس کو صرف ’’لہو لہان‘‘ ہی دیکھا ہے۔
آجکل ’’ڈی چوک‘‘ پر 26 نومبر کو کتنے لوگ مارے گئے۔ پی ٹی آئی اور قانون نافذ کرنے والے بحث کر رہے ہیں مگر اُن دنوں جب کراچی کی صبح کا آغاز تین لاشوں سے ہوتا تھا اور یہ تعداد شام تک 30 اور رات گئے تک 50 تک پہنچ جاتی تھی جو دوست بین الاقوامی میڈیا کیلئے کام کرتے تھے خاص طور پر نیوز ایجنسی کیلئے اُن کی مشکل یہ ہوتی تھی جو تعداد انہوں نے ایک گھنٹے پہلے دی ہوتی تھی اس میں منٹوں کے لحاظ سے اضافہ ہوتا رہتا تھا۔ اب کن واقعات کا ذکر کروں کہ اسپتالوں اور ایدھی کے مردہ خانوں میں جگہ کم پڑ جاتی تھی۔ آج یہ واحد شہر ہے جہاں ’’نا معلوم افراد‘‘ کا قبرستان بھی ہے اور نہ جانے کتنے افراد آج بھی ’’نامعلوم‘‘ یا ’’لاپتہ‘‘ ہیں۔ بچی ترنم عزیز سے لے کر معصوم سسٹرز (دو بہنیں) جنہیں اغوا کر کے قتل کیا گیا۔ بشریٰ زیدی سے لیکر سہراب گوٹھ، علی گڑھ، قصبہ کالونی، صدر بم دھماکہ ایک لمبی فہرست ہے۔ اپنی صحافتی زندگی میں ہزاروں لاشیں سڑکوں اور اسپتالوں میں دیکھیں بھی، رپورٹ بھی کیں۔ سرکٹی لاشوں سے لے کر بوری بند لاشوں تک۔
مگر یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا، گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دو انے، ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا۔ ہاں اسی شہر نے سیاست اور صحافت کو پہچان دی۔ یہ وہ وقت تھا جب صبح سویرے یہاں کے مکین ایم اے جناح روڈ کو دھوتے تھے۔ پھر کھلی اور کشادہ سڑکوں پر ٹرام، ڈبل ڈیکر، لمبے سائز کی بسیں اور سرکلر ریلوے آبادی کا بوجھ اُٹھانے کیلئے کافی تھی۔ انگریز گیا مگر ایک نظام چھوڑ گیا تھا۔ نکاسی کا بھی اور پینے کے صاف پانی کا بھی۔ تعلیم کا اعلیٰ معیار تھا۔ کھیلوں کے میدانوں کا ایک جال تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر نے نامور کھلاڑی دیئے کرکٹ کو بھی، ہاکی اور اسکواش کو بھی۔ پہلی طلبہ تحریک بھی کتابوں اور فیسوں میں اضافے پر چلی جس کی قیادت ڈاکٹر سرور، ڈاکٹر ہارون اور ادیب الحسن رضوی جیسے طالب علم کر رہے تھے۔ صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی بنیاد بھی اسی شہر میں 2 اگست 1950 کو خالق دینا ہال میں ایک بڑے کنونشن میں رکھی گئی۔
پاکستان کو بنے دو سال ہوئے تھے مگر اُس وقت بھی اظہار رائے پر پابندی تھی اور صحافت آسان نہ تھی نہ ہی ٹریڈ یونین۔ مگر کراچی صحافت کی نرسری بن گیا۔ دو بڑے میڈیا گروپ جنگ اور ڈان کے ہیڈ کوارٹرز آج بھی یہیں ہیں مگر ایک وقت تھا جب یہاں شام کے اخبارات کا بھی ایک کلچر تھا جس میں کراچی کے بلدیاتی مسائل پر بڑی بھرپور اور تحقیقاتی رپورٹس شائع ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ ’’دی سن‘‘ اخبار انگریزی صحافت میں ایک نیا مزاج لے کر آیا تھا۔ مارننگ نیوز کا دفتر جہاں ہوتا تھا اُس کے سامنے ’’امن اخبار‘‘ جہاں اب بلند و بالا عمارت ہے۔ بمبئی ہوٹل میں کئی اخباروں کے بیورو ہوتے تھے بشمول بی بی سی، وہ بھی چند سال پہلے توڑ کر وہاں کئی منزلہ عمارت کی تعمیر ہو رہی ہے۔ کراچی پریس کلب بھی، اس شہر کی پہچان رہا ہے 1958ء سے جہاں ہر سال الیکشن ہوتے ہیں البتہ بہت سی تاریخی روایات ماند پڑتی جا رہی ہیں۔ پی ایف یوجے کیلئے کلب کی بنیاد رکھی ایک جمہوری عمل سے۔
آمرانہ ادوار میں یہی کلب مزاحمت کی پہچان بن گیا صحافی تحریکیں ہوں یا سیاسی۔ ایک وقت تھا جب جوش، فیض اور جالب جیسے نامور شاعروں کو ’’تاحیات ممبر شپ‘‘ اُس وقت دی گئی جب ریاست نے اُن پر پابندی لگائی اب شاید ہم غور نہیں کرتے جب کسی کو ’’تاحیات‘‘ ممبر بنا رہے ہوتے ہیں کہ اُس کی معاشرے کیلئے کیا خدمات ہیں۔ سیاست میں یہ شہر حزب اختلاف کا شہر بن گیا جب اس نے ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کو ووٹ دیا، اُس کی ایسی سزا دی گئی کہ آج تک دی جا رہی ہے کبھی لسانی انداز میں تو کبھی فرقہ واریت میں۔ اُس کے آنے والے ہر حکمران اور نوکر شاہی نے صرف اور صرف اس عروس البلاد کو لوٹا۔ آج اگر سول سروس کے ریٹائر ہونے والے افسران اس کانفرنس میں کوئی بیانیہ پیش کرتے ہیں تو اُس کی ابتدا اُن کے اعتراف ندامت سے ہونی چاہئے کہ کہیں نہ کہیں انہوں نے اپنا رول ادا نہیں کیا۔ آخر اربوں روپے ’’منصوبوں‘‘ اور ’’فائلوں‘‘ کی نذر ہوئے تو اِن میں کچھ بیورو کریٹ کا ہاتھ رہا ہو گا اور تھا۔
کئی اچھے افسران بھی گزرے مگر وہ سائیڈ لائن کر دیئے گئے اور پھر وہ ریٹائر ہو گئے۔ آخر میں ان بڑے بڑے منصوبوں کا حساب ان سے کیوں نہ ہو، چاہے وہ کراچی ماس ٹرانزٹ ہو، لیاری ایکسپریس وے ہو، سرکلر ریلوے ہو، کے۔ 4 ہو یا سیف سٹی پروجیکٹ یا سالوں سے ٹوٹی ہوئی یونیورسٹی روڈ۔ اس شہر میں ’’جرم و سیاست‘‘ کا ایسا ملاپ قائم ہوا کہ ایک بار خود ایک وزیر اعلیٰ کی زبان پر یہ بات آ ہی گئی کہ فلاں ڈی آئی جی کا تعلق ’’انڈر ورلڈ‘‘ سے ہے۔ آج کا کراچی انہی جیسے افسران، سیاستدانوں اور خاص طور پر جنرل ضیاء کے 11 سال کی پالیسیوں اور منفی سیاست کا نتیجہ ہے خاص طور پر ڈرگ اور اسلحہ کا کلچر۔ ورنہ تو یہ شہر وفاقی دارالحکومت بھی رہا اور آج سندھ کا دار الحکومت بھی ہے تو پھر آخر اس کا کوئی وارث نہ بنا ایک ’’میٹرو پولیٹن سٹی‘‘ کیوں نہ بن سکا۔ بڑے شہروں میں لوگ دوسرے شہروں سے آتے ہیں روزگار کی تلاش میں بھی اور تعلیم حاصل کرنے بھی مگر اُس کیلئے ایک مربوط منصوبہ بندی کی جاتی ہے آباد کاری کی جاتی ہے یہ نہیں کہ جنرل عباسی صاحب ایک آرڈیننس جاری کریں ’’کچی آبادیاں‘‘ بنانے کیلئے اور پورا شہر ہی کچی آبادی بن جائے۔
سوچتا ہوں ’’جشن کراچی‘‘ کیسے منائوں۔ کراچی کو اب یاد ہی کیا جا سکتا ہے۔ ’’زندہ‘‘ کرنے میں بڑی محنت درکار ہے جس کیلئے ہمیں اس کا وارث بننا پڑے گا۔ بہت نفرت کی سیاست کر لی، میرٹ کا قتل کر کے اس شہر اور صوبہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا۔ اب کل کا کراچی ایک ’’خوبصورت خواب‘‘ ہے۔ آج کا کراچی ایک تلخ حقیقت اور مستقبل کا عروس البلاد اِک اُمید۔ آرٹس کونسل مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے نہ صرف پرانے شہر کو واپس لانے کی کوشش کی ہے بلکہ ایک روشن خیال اور ترقی پسند پاکستان کو یکجا کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔
0 Comments