وہ شخص اب یہاں نہیں ملے گا
طویل راہوں سے آنے والو!...
بڑے تحیّر سے دیکھتے ہو؟
قریب آؤ، بتاؤ، سمجھاؤ،
کس سے کیا چیز چاہتے ہو؟
پتہ یہ تم کس کا پوچھتے ہو؟
وہ کون ہے جس کو ڈھونڈتے ہو؟
وہ شخص اب یہاں نہیں ملے گا
وہ اک شجر تھا مثل طوبیٰ
تم اس کی چھاؤں میں بیٹھتے تھے
دلوں کے دکھ درد کولتے تھے
سوال پیچیدہ پوچھتے تھے
پھر اس حکیمِ حلیم سے سن کے
حرفِ اخلاص جھومتے تھے
وہ شخص اب یہاں نہیں ملے گا
وہ شخص اب اک سحر کی صورت
جہاں میں پھیلا ہوا ملے گا
رہِ خدا کے سپاہیوں کی
دعاؤں میں وہ رچا ملے گا
ستیزہ گاہوں میں جاں لڑاؤ
وہاں وہ خود تم سے آ ملے گا
وہ شخص اب یہاں نہیں ملے گا
وہ تیز دھارا ہے روشنی کا
کہیں نہیں ہے مقام اس کا
وہ ان کے جذبات میں ہے شامل
جو لے کے نکلیں پیام اس کا
اقامتِ دینِ حق کی خاطر
جو کرتے پھرتے ہیں کام اس کا
وہ شخص اب یہاں نہیں ملے گا
کتابِ دوراں کے ہر ورق پر
حیات اس کی رقم شدہ ہے
ہزاروں سینوں کا درد پنہاں
فغاں میں اس کی بہم شدہ ہے
کئی صدی کا جہادِ پیہم
مساعی میں اس کی ضم شدہ ہے
وہ شخص اب یہاں نہیں ملے گا
نظام اسلام آئے گا جب
تو اس کا تازہ ظہور ہوگا
جہاں میں شورِ نشور ہوگا
وقوعِ محشر ضرور ہوگا
وہ دے گیا ہے خبر سحر کی
اندھیرا باطل کا دور ہوگا
وہ شخص اب یہاں نہیں ملے گا
نہیں وہ موجود گو بظاہر
جگہ جگہ ہے سراغ اس کا
وہی ہے ساقی، اسی کی محفل
ایاغ اس کا، چراغ اس کا
ہزاروں دل ہیں کہ جن کے اندر
جھلک رہا ہے دماغ اس کا
وہ شخص اب یہاں نہیں ملے گا
ذرا سے خاکی وجود میں وہ
رہا ہے برسوں تلک سمٹ کر
بدن کا بوسیدہ خول ٹوٹا
غبارِ خاکی رہا ہے چھٹ کر
شعاوں کے پر لگا کے اب وہ
حضورِ یزداں گیا پلٹ کر
وہ شخص اب یہاں نہیں ملے گا
نہ روؤ اس کو کہ جلوہ فرم
وہ کہکشاں تا بہ کہکشاں ہے
فرازِ جنّت کے سبزہ زاروں میں
رونقِ بزم قدسیاں ہے
ہوا مقرّب وہ انبیاُ کا
وہ آج، مخدوم نوریاں ہے
وہ شخص اب یہاں نہیں ملے گا
0 Comments