Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی ادب میلہ



ادب یعنی لٹریچر کا کسی انسان کی شخصیت کی تعمیر میں کیا کردار ہے اس پر شاید دو رائیں ممکن نہیں کہ جب سے انسان نے لکھنا اور پڑھنا سیکھا ہے ادب اس کی روح اور دل و دماغ کے لیے کم وبیش وہی کام کرتا ہے جو آکسیجن اس کے جسمانی وجود کو قائم اور برقرار رکھنے کے لیے کرتی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان سوچنے اور بولنے پر تو اس دور میں داخل ہونے سے پہلے بھی دسترس رکھتا تھا سو دیکھا جائے تو ہمارے آج کے ادب میں گزرے ہوئے کل کی Folk Wisdom اور شعورِ زندگی بھی نمایاں طور پر شامل ہے۔ کراچی ادب میلے جیسے ادبی میلوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان کی وساطت سے ہم تینوں زمانوں کو ایک ساتھ دیکھ بھی سکتے ہیں اور ان سے مکالمہ بھی کر سکتے ہیں۔ اس ادبی میلے میں کیا کچھ ہوا اس کا ذکر تفصیل کا متقاضی ہے۔

سو عین ممکن ہے کہ یہ روداد دو بلکہ تین کالموں تک بھی پھیل جائے لیکن اس ذکر سے پہلے چند باتیں ان سرکاری اور نیم سرکاری سرپرستی میں چلنے والے اداروں کی اسی نوع کی کانفرنسوں کے بارے میں کرنا بہت ضروری ہے کہ اگر آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی اس تقریب کو بھی تیسری دنیا کے خلاف سامراج کی ایک نئی سازش قرار نہ دے دیا جائے (کہ فی زمانہ اپنی کمزوریوں کو چھپانے کا یہ ایک مقبول بہانہ بن چکا ہے) اور اس کا جائزہ اس پہلو سے لیا جائے کہ اگر ایک پرائیویٹ ادارہ محض اپنی انتظامی صلاحیتوں کی مدد سے ایسی منظم‘ باضابطہ اور عمدہ تقریب منعقد کر سکتا ہے تو ہمارے متعلقہ ادارے ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔ مثال کے طور پر اس وقت مجھے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیراہتمام منعقد ہونے والی کچھ ’’بین الاقوامی کانفرنسیں‘‘ یاد آ رہی ہیں جن میں اکادمی کے عملے کی ناتجربہ کاری اور بیورو کریسی کی افسرشاہی نے مل کر ایک ایسی بدنظمی کی صورت پیدا کر دی تھی جو مہذب تو کیا کسی نیم مہذب قوم کے لیے بھی ندامت اور شرمندگی کا منہ بولتا پیغام تھی۔

اس ضمن میں تقریباً دو برس قبل ہونے والی ایک کانفرنس خاص طور پر یاد آ رہی ہے کہ جس میں چار سو سے زائد لکھنے والوں کو مدعو کیا گیا تھا لیکن افتتاح سے چند گھنٹے قبل ہی انھیں بتایا گیا کہ اب یہ رسم افتتاح نیشنل لائبریری کے ہال کے بجائے (جہاں اس کانفرنس کا انعقاد طے کیا گیا تھا) وزیراعظم ہاؤس میں ہو گی کہ ’’موصوف‘‘ اپنی موجودگی سے اس کانفرنس کو عزت بخشنا چاہتے ہیں۔ اب ہوا یوں کہ جس ہال میں یہ اجلاس ہونا تھا اس کی وسعت داماں زیادہ سے زیادہ 250 سیٹوں تک محدود تھی یعنی ’’معزز مندوبین‘‘ میں سے 150 خواتین و حضرات کے لیے وہاں بیٹھنے کی جگہ ہی نہیں تھی۔ اس پر مزید کمال سیکیورٹی کے عملے نے یہ دکھایا کہ تمام مندوبین کو کھلے آسمان تلے تقریباً ایک گھنٹے تک دھوپ اور قطاروں میں کھڑے کر دیا جن میں وہ بزرگ اور نامور لکھنے والے بھی شامل تھے جن کے لیے یہ عمل ذہنی اور جسمانی دونوں حوالوں سے ناقابل برداشت تھا۔ بعد میں اکادمی کے سربراہ نے بتایا کہ یہ ساری کارروائی ان کے احتجاج کے باوجود اس لیے کی گئی کہ بیورو کریسی کی ہدایات کے تحت متعلقہ تقریب کے انتظامات سیکیورٹی والوں کے حوالے کر دیے گئے تھے جو خود ان کی یعنی چیئرمین اکادمی اور میزبان کی بات سننے کے بھی روادار نہ تھے البتہ مہمانوں کی فہرستیں بنانے‘ ان کو ٹکٹیں فراہم کرنے اور ان کی رہائش اور ٹرانسپورٹ کے انتظامات میں جو مسائل پیدا ہوئے اس کی بڑی وجہ ان کے پاس موجود افراد کی کمی اور کچھ دیگر ناقابل بیان وجوہات کے باعث تھیں۔ اس پر مجھے سید ضمیر جعفری مرحوم کا ایک شعر بہت یاد آیا کہ

یہ بڑھاپا تو مجھ کو خدا نے دیا

ہے بڑھاپا مگر میرا خودساختہ

کم و بیش اسی قسم کی بدنظمی اور کچھ لوگوں کی ذاتی پسند ناپسند کا ناخوشگوار اظہار ہمیں ادب سے متعلق بیشتر دیگر سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی کارکردگی میں دکھائی دیتا ہے۔ میں نے کچھ جاننے والے بیورو کریٹس سے اس موضوع پر بات کی تو ان کا جواب اور بھی زیادہ تکلیف دہ تھا اور وہ یہ کہ اگر متعلقہ اداروں کے اعلیٰ افسران پوری محنت اور ذمے داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیں اور اپنا مؤقف صحیح طرح سے پیش کرنے کی اہلیت اور نیت رکھتے ہوں تو کسی اور کی دخل اندازی کی گنجائش ہی نہیں نکل سکتی۔ یہاں پھر مومن خان مومن کا ایک شعر یاد آرہا ہے کہ کرداروں سے قطع نظر باقی ساری بات یہی ہے کہ

یہ عذرِ امتحانِ جذبِ دل کیا نکل آیا

میں الزام اس کو دیتا ہوں قصور اپنا نکل آیا

کے ایل ایف یعنی کراچی لٹریچر فیسٹیول کا آغاز پانچ برس قبل ہوا اور اب گزشتہ دو برس سے اس کا انعقاد ساحل سمندر پر واقع ایک لگژری ہوٹل میں ہو رہا ہے جس کا فن تعمیر کولونیل دور کی یادگار ہے جو خاصے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے لیکن اس فیسٹیول میں جس تناسب سے عوام کی شمولیت میں اضافہ ہو رہا ہے یوں لگتا ہے کہ جیسے آیندہ ایک دو برس میں یہ جگہ بھی کم پڑ جائے گی۔ یہ اور بات ہے کہ فی الوقت اور بالخصوص امن وامان کی صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے اس سے زیادہ بہتر اور محفوظ کوئی اور جگہ شاید ممکن بھی نہیں کہ اس میلے میں اہم ملکی مندوبین کے ساتھ ساتھ غیرملکی مندوبین اور سفارت کار بھی شرکت کرتے ہیں۔ گزشتہ چار میلوں کی طرح اس بار بھی ہر کام بڑے منظم اور باقاعدہ انداز میں کیا گیا تھا۔ جن موضوعات پر بات کی جانی تھی ان کا انتخاب بڑی ذمے داری اور سوچ بچار کے ساتھ کیا گیا تھا اور اس ضمن میں جملہ تفصیلات طے کرنے کے بعد متعلقہ افراد سے بذریعہ ای میل کوئی تین ماہ قبل سے دوطرفہ رابطے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا جس کا خوشگوار نتیجہ یہ نکلا کہ ہر سیشن اپنی مقرر کردہ جگہ پر نہ صرف عین وقت پر شروع اور ختم ہوا بلکہ عام رواج سے قطع نظر ان میں وہ تمام لوگ شریک ہوئے جن کے نام پروگرام میں دیے گئے تھے۔

امینہ سید جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کی عظیم ادیبہ قرۃ العین حیدر کی نزدیکی رشتہ دار بھی ہیں‘ ہمہ وقت مصروف لیکن Relaxed نظر آئیں کہ اگر سسٹم صحیح ہو تو متعلقہ ذمے داروں کی Tension آپ سے آپ کم ہو جاتی ہے۔ افتتاحی تقریب میں شرکت کے پیش نظر مجھ سمیت بیشتر غیرملکی اور بیرون کراچی سے مدعو شدہ مندوبین ایک شام پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ کاروباری شہر ہونے کے حوالے سے کراچی کے elite اور بالائی متوسط طبقے کو عام طور پر دیر سے جاگنے والوں کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے مگر یہ بڑی خوشگوار حیرت کی بات ہے کہ اس میلے میں شمولیت کے لیے صبح نو بجے سے ہی لوگوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور افتتاح کے وقت یعنی دس بجے کے قریب پنڈال تقریباً پورا بھر جاتا ہے کہ پہلا اجلاس کسی ہال کے بجائے ایک وسیع لان میں بنائے گئے عارضی پنڈال میں منعقد کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شامل ہو سکیں۔ اس پنڈال کو بعد میں بھی ایسے مختلف سیشنز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جن میں زیادہ لوگوں کی شرکت متوقع ہو۔ اسی طرح کا ایک عارضی پنڈال بچوں کے پروگراموں کے لیے بھی ایک اور گوشے میں تعمیر کیا جاتا ہے کہ اس طرف بھی بہت رش پڑتا ہے۔ معمول کے سیشن جن ہالوں میں منعقد ہوتے ہیں ان کے نام کچھ اس طرح سے ہیں Jasmine‘ Aquarius‘ Room 007‘ Princess‘ Children’s strand اور Tulip۔ آخری دو مقامات بچوں کے پروگراموں کے لیے مخصوص ہیں جب کہ Main garden سمیت بقیہ ہالوں میں بیک وقت تقریباً دو ہزار لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے جب کہ کھڑے ہو کر سننے اور گھومنے پھرنے والوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو تقریباً پانچ ہزار لوگ ایک وقت میں اس میلے کا حصہ بن سکتے ہیں جو ادب کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے یقینا ایک معرکے سے کم نہیں۔

امجد اسلام امجد   

Post a Comment

0 Comments