کہاں شکرِ نعمت سے سرشار بستی،در و بام پر جس کے برکت برستی
قناعت سے آسودہ چہر وں کی جنت
دلوں میں کوئی بغض تھا،نَے لبوں پر کسی کے کوئی حرفِ نفرت
جہاں زیست کی ساری خوشیاں تھیں سستی
وہ کیسی بلندی تھی، یہ کیسی پستی
قبا زندگی کی ہے اب سب کو کَستی،یہاں ہر نظر ایک دوجے کو ڈستی
نہیں دوست! یہ ’’وہ کراچی‘‘ نہیں ہے!
یہاں مہر و اُلفت کے دریا رواں تھے،جو گُل پیرہن تھے، وہ سب گُل فشاں تھے
پَرے شاعروں کے یہاں نغمہ خواں تھے
جو اہلِ زباں تھے وہ شیریں بیاں تھے، وہ شیریں سخن تھے، وہ شیریں دہاں تھے
اور اب گولیوں کی تڑاتڑ ہے،لاشوں کے بورے… لہوکے چٹورے وحوش و بہائم … گلی میں جرائم
یہ خاموش و خائف فضا، یہ اُداسی،گھروں کے مقابر،
یہ سنسان و ساکت سی گلیاں ہیں یا اپنے ایک ایک باسی کے خوں کی ہیں پیاسی؟
یہاں اب کوئی شاعرِ دل گرفتہ، گئے دور کا مرثیہ پڑھ رہا ہے
عصائے خمیدہ کا لے کر سہارا،کوئی بوڑھا والد،
جواں قبر پر فاتحہ پڑھ رہاہے
نہیں دوست! یہ ’’وہ کراچی‘‘ نہیں ہے
0 Comments