Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی! قائد کا مولد، مسکن اور مدفن......


شہر کراچی کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح اس شہر میں پیدا ہوئے،اسی کو اپنا مسکن بنایا اور یہیں مدفون ہوئے۔ قائد سے والہانہ عقیدت و محبت کے اظہار کے لیے ہندوستان سے لٹے پٹے آنے والے مہاجرین اپنی جھونپڑیاں ہٹاکر مزار قائد کے لیے جگہ فراہم کی۔ قائد اعظم کے علاوہ شہید ملت لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح، سردار عبدالرب نشتر اور نورالامین جیسی شخصیات بھی مدفون ہیں اس میں ایک میوزیم بھی قائم ہے۔

تقسیم ہند کے بعد نوزائیدہ مملکت پاکستان کی تعمیر وترقی میں اہل کراچی کا کلیدی کردار رہا ہے یہ شہر حکومت کا دارالخلافہ بھی رہا مگر اس سے اعزاز چھین لیا گیا۔ صنعت وحرفت، تجارت و معیشت، سیاست و تعلیم اور فنون لطیفہ غرض ہر شعبہ زندگی میں اس شہر کے باسیوں کا کلیدی اور ہراول دستے کا کردار رہا ہے گزشتہ روز شاہ محمود قریشی نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بجا کہا ہے کہ ’’جب کراچی جاگتا ہے تو پاکستان کی سیاست کروٹ لیتی ہے۔‘‘

حقیقت بھی یہی ہے کہ جب کراچی میں امن و سکون سیاست اور معیشت دونوں عروج پر تھے جب یہاں امن وامان کا مسئلہ گمبھیر ہوجاتا ہے تو اس کے اثرات پورے ملک کی معیشت اور سیاست دانوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ آج محسوس یہ ہوتا ہے کہ کسی مذموم سازش اور منصوبہ بندی کے تحت اس شہر میں مذہبی، لسانی اور سیاسی تفریق کو پروان چڑھاکر امن وامان، صحت و صفائی، تعلیم و میرٹ کو تباہ کرکے شہریوں کو بے ہنگم ٹریفک تجاوزات، لینڈ مافیا، اسٹریٹ کرائمز، بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے حوالے کردیا گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ قائد کے شہر کے علاوہ قائد کے مزار کو بھی نہیں بخشا گیا جو قومی تشخص کی علامت ہے۔یہاں پر کون کون سے اخلاقی و قانونی جرائم سرعام نہیں ہوتے ہیں۔

غالباً 28 اگست سے سیکیورٹی کی وجوہات ظاہر کرکے مزار قائد اور اس کے احاطے میں عوام الناس کا داخلہ بند ہے۔ مزار قائد شہر کے وسط میں ایک وسیع و عریض علاقے پر مشتمل ہے جہاں گھاس، درخت، فوارے اور پانی کے حوض مزار پر آنے والے شہریوں کے لیے تفریحی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں احاطے میں گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے بہت بڑا حصہ مختص ہے۔

قومی تہواروں اور تعطیلات کے ایام میں شہریوں کی بڑی تعداد مزار قائد پر حاضری دیتی ہے۔ اس 11 ستمبر کو قائد کا 66 واں یوم وفات منایا گیا تمام صوبائی اور وفاقی دارالحکومتوں میں توپوں کی سلامی دی گئی، مزار پر حکمرانوں، سیاستدانوں، اعلیٰ حکام اور تنظیموں نے حاضری دی ذرائع ابلاغ نے خصوصی پروگرام نشر کیے اخبارات نے خصوصی ایڈیشن شائع کیے بانی پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا گیا قیام پاکستان کے لیے ان کی انتھک جدوجہد اور قائدانہ کردار کے تذکرے کیے گئے۔

اس سال قائد اعظم کا یوم وفات اس لحاظ سے پاکستانی تاریخ کا بدقسمت دن تھا کہ سیکیورٹی خدشات کے باعث مزار قائد کے دروازے تمام شہریوں پر بند کردیے گئے تھے۔ شہریوں کی بڑی تعداد نے مزار کا رخ کیا تھا جو یہاں آکر مایوس ہوئے۔ شہریوں کا گلہ تھا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ قائد کے یوم وفات پر ان کے لیے مزار کے دروازے بند کیے گئے ہیں اگر حکومت چاہتی تو انتظامات بہتر کرکے مزار کو عام شہریوں کے لیے کھول سکتی تھی۔ مزار قائد کے مینجمنٹ بورڈ کے ذرائع نے بتایا کہ سیکیورٹی خدشات کے باعث مزار کو عام شہریوں کے لیے بند کیا گیا تھا جو کلیرینس ملنے پر کھول دیا جائے گا۔

کچھ عرصے سے قائد کے نظریات اور ذات کے مطابق غلط بیانیوں، بدگمانیوں اور مبالغہ آرائی کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ کبھی ان کی ذات، مذہب اور جائے پیدائش سے متعلق سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور کبھی نظریات کے حوالے سے بحث کی جاتی ہے کہ قائد اعظم ایسا پاکستان چاہتے تھے، قائد اعظم ویسا پاکستان چاہتے تھے روز روز نئے سیاسی نعرے لگائے جاتے ہیں پہلے کہا جاتا تھا کہ ہم اس ملک کو قائداعظم کا پاکستان بنائیں گے اب دعوے کیے جاتے ہیں کہ ہم نیا پاکستان بنائیں گے۔ جب قائد اعظم نے ایک نظریاتی مملکت کی بنیاد ڈال دی، اس کے خدوخال بیان کردیے پھر اس کو ایک متفقہ آئین بھی مل گیا جس میں یہ تمام امور طے شدہ ہیں تو نئے پاکستان کے نعروں کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے۔

قائد اعظم کے تشخص اور شخصیت کو مسخ کرنے کے لیے قائد اور ابوالکلام آزاد کی ذات اور نظریات کا موازنہ شروع کردیا جاتا ہے اور اس کے لیے ان دونوں شخصیات کے مخصوص موضوعات پر تقریروں اور تحریروں کے من پسند حصے ان کے سیاق و سباق سے ہٹ کر من چاہے مطالب و معنی پہناکر استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ ایک مخصوص سوچ پیدا کرکے اپنے مطلوبہ مذموم مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔ ان کوششوں میں قائد اعظم اور ابوالکلام آزاد دونوں کے نظریات و افکار اور ان کی ذات کی نفی ہوتی ہے۔ پچھلے سال زیارت میں قائد اعظم ریزیڈنسی میں تخریب کارانہ آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا جس میں عمارت سے پاکستان کا قومی پرچم اتار کر ایک علیحدگی پسند تحریک کا پرچم لہرادیا گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد علاقے کے لوگ جمع ہوگئے تھے جنھوں نے اس المناک کارروائی پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور قائد اعظم اور پاکستان کے حق میں فلک شگاف نعرے لگائے تھے۔ لیکن حکومت کی بے حسی یہ تھی کہ اس نے اس قومی المیے کو صوبائی معاملہ قرار دے کر اپنا دامن چھڑالیا تھا سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں اور شخصیات کی جانب سے بھی سانحے پر عمومی طور پر لاتعلقی کا رویہ رہا۔

البتہ قائد اعظم کی نواسی اور ان کے شوہر کی گنتی کے چار افراد کے ساتھ مظاہرہ کرتے ہوئے ایک تصویر اخبارات میں ضرور چھپی جس میں یہ افراد ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے ہوئے قائد کی رہائش گاہ اور عظیم قومی ورثے کو بموں اور راکٹوں سے تباہ کردینے کی اس دہشت گردانہ کارروائی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ملک کے خالق کے ساتھ اس قسم کا رویہ دنیا کے کسی اور ملک میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک منظم سازش کے تحت کیا جا رہا ہے۔

سب سے پہلے اس کی ابتدا 25 دسمبر 2006 کو پرویز مشرف کی حکومت نے کی جب مزار قائد کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اس دن مزار کے دروازے بند کرکے احاطہ مزار میں نغمہ سرائی کی محفل سجاکر سیاسی پروپیگنڈا کیا گیا، رہبر ترقی و کمال کے نام سے یہ تقریب رات گئے تک جاری رہی۔ مزار قائد پر 6 خواتین اور ایک سکھ گارڈ کو تعینات کرکے اقلیتوں کے ساتھ مساوی سلوک کرنے پر داد سمیٹی گئی مزار قائد کے احاطے میں جہاں پان سپاری تک لے جانا منع ہے وہاں حکومتی سطح پر اس قسم کا پروگرام کرکے مزار کے تقدس کو نقصان پہنچایا گیا اس کے بعد سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔

مزار پر ایک مجسٹریٹ بیٹھتا ہے دیگر ایجنسیوں کے افراد بھی موجود رہتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود احاطہ مزار اور اطراف کی شاہراہیں بدقماش لوگوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہیں۔ مزار کو فحاشی کے لیے کرایہ پر دینے کا انکشاف، ثبوت اور فلمیں ٹی وی کے ذریعے تمام دنیا نے دیکھیں مگر ارباب اختیار اور اقتدار کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ چند سال قبل پنجاب سے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ مزار قائد پر آنے والی دوشیزہ کو چند لمحوں کے لیے مزار کی روشنیاں بند کرکے اغوا کرلیا گیا تھا اور مزار میں کئی دنوں تک جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد رات کی تاریکی میں مزار کے احاطے سے باہر ملحقہ سڑک پر پھینک دیا گیا تھا۔
مزار کا انتظامی بورڈ، مجسٹریٹ، کیڈٹ اور قانون نافذ کرنے والے اور خفیہ اداروں کے ہوتے ہوئے اس قسم کے قبیح واقعات ببانگ دہل کیونکر ہو رہے ہیں جن کو سن کر انسانیت کا سر بھی ندامت سے جھک جاتا ہے۔ مگر ارباب اختیار و اقتدار کو جھرجھری تک نہیں آتی۔ پرویز مشرف کی مسلم لیگ سے شروع ہونے والے اس سلسلے میں مسلم لیگ ن تک بے انتہا تیزی آگئی ہے کاش یہ مسلم لیگی اور قائد اعظم کے سیاسی و نظریاتی جانشینی کا دعویٰ کرنے والے قائد اور اس ملک کے تشخص کا دفاع کرسکیں۔

عدنان اشرف ایڈووکیٹ

Post a Comment

0 Comments