Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی - شہری سال بھر لٹتے رہے


کراچی شہر میں جرائم کی شرح میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ کراچی کی شاہرائوں پر روزانہ تقریباً30موٹر سائیکلوں اور10کاروں میں اضافہ ہوتا ہے لیکن وارداتوں کی شرح بھی اسی رفتار سے بڑھ رہی ہے اور گاڑیاں چھینے جانے کے بعد دوسرے صوبوں میں سمگل ہوجاتی ہے ۔رواں برس کے دوران یکم جنوری سے 10دسمبر تک شہر کے مختلف علاقوں سے 3556کاریں ،21277 موٹر سائیکلیں اور29382موبائل فون چوری یا چھین لئے گئے جبکہ گاڑیاں اور موبائل فون چھینے جانے کے دوران مزاحمت کرنے پر ملزموں کی فائرنگ سے بیسیوں افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوگئے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی کے باسیوں سے 6ارب سے زائد مالیت کی گاڑیاں وموبائل فون چھینے یا چوری کیے گئے۔رواں برس کے آغاز سے10دسمبر تک پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جہاں شہر میں ٹارگٹ کلنگ سمیت دیگر جرائم پر قابو نہیں پا سکے تو دوسری جانب ان واقعات میں ملوث ملزموں کی گرفتاری کے لئے بھی کوئی حکمت عملی تیار نہیں کرسکے اور کراچی پولیس کی گاڑیوں کے چوری وچھینے جانے کے واقعات میں ملوث ملزموں کی سرکوبی کے لیے بنائے جانے والے اینٹی کار لفٹنگ سیل کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے ‘اگر ہم سال رواں میں گاڑیوں اور موبائل فونز کے چوری یا چھینے جانے کے واقعات کا سی پی ایل سی کے مرتب کئے جانے والے ریکارڈ سے تقابلی جائزہ لیں تو ماہ جنوری میں شہر کے مختلف علاقوںسے 1733 موٹر سائیکلیں ،335 کاریں اور2242موبائل فون چوری یا چھین لئے گئے۔
فروری میں 1649موٹر سائیکلیں ، 353کاریں اور2099موبائل فون‘مارچ میں2017 موٹر سائیکلیں، 382 کاریں اور 2486موبائل فون‘ اپریل میں1704 موٹر سائیکلیں، 265کاریں اور2486موبائل فون، مئی کے مہینے میں1801 موٹر سائیکلیں ،304کاریں اور2629موبائل فون چوری یا چھین لیے گئے۔ اسی طرح جون کے مہینے میں 1866 موٹر سائیکلیں ،334 کاریں اور2833 موبائل فون چوری یا چھین لیے گئے۔جولائی کے مہینے میں 2197موٹر سائیکلیں ،336کاریں اور 2294 موبائل فون چوری ہوئے یا چھین لئے گئے۔ اگست کے مہینے میں 2050 موٹر سائیکلیں ،297کاریں اور 2063موبائل فون‘ ستمبر کے مہینے میں 2144موٹر سائیکلیں ،369کاریں اور 3232موبائل فون‘اکتوبر کے مہینے میں 1861موٹر سائیکلیں ،296کاریں اور 3065موبائل فون،نومبر کے مہینے میں 1625موٹر سائیکلیں،285کاریں اور2765موبائل فون چوری ہوئے یا چھین لئے گئے۔اس ہی طرح10دسمبر تک 630 موٹر سائیکلیں، 100کاریں اور1050موبائل فون چوری ہوئے یا چھینے جاچکے ہیں۔رواں سال 10دسمبر تک 6ارب سے زائد مالیت کی موٹر سائیکلیں ، کاریں اورموبائل فون چوری یا چھین لئے گئے جب کہ گاڑیاں اور موبائل فونز کے چھینے جانے کے واقعات میں ملزموں کی فائرنگ سے درجنوں افراد جاں بحق اورسینکڑوں زخمی بھی ہوئے۔ دریں اثناء سندھ پولیس کی جانب سے مرتب کئے جانے والے ریکارڈ کے مطابق سال رواں کے دوران16083موٹر سائیکلیں چوری ہوئیں جب کہ6201چھین لی گئیں جبکہ 3222 کاریں چوری اور846کاریں چھین لی گئیں۔

 اسی طرح 10501موبائل فون چوری ہوئے یا چھین لئے گئے ۔پولیس ذرائع کے مطابق پولیس اور سی پی ایل سی کی جانب سے مرتب کئے جانے والے ریکارڈ میں تضاد ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پولیس گاڑیوں‘موٹرسائیکلوں اور موبائلوں کے چوری یا چھینے جانے کے واقعات کی ایف آئی آر درج نہیں کرتی جس کے باعث اعداد و شمار میں یہ فرق آ رہا ہے۔ کراچی پولیس کے سینئر پولیس افسر نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ گاڑیوں کے چوری وچھینے جانے کے واقعات کو کنٹرول کرنے اور ان کارروائیوں میں ملوث ملزموں کو گرفتار کرنے کے لئے سندھ پولیس کے خصوصی شعبے اینٹی کارلفٹنگ سیل کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھتا ہے۔ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ اینٹی کارلفٹنگ سیل میں تعینات پولیس افسر واہل کاروں کے کئی برسوں سے تبادلے نہیں ہوئے اور وہ ایک ہی جگہ پر تعینات ہیں جس کے باعث اینٹی کارلفٹنگ سیل میں تعینات پولیس افسراواہلکار وں کے کارلفٹنگ گروہ سے مبینہ طور پر اچھے مراسم ہیں اور کچھ کارلفٹر گروہوں کو اے سی ایل سی پولیس کے افسروں واہلکاروں کی آشرباد بھی حاصل ہے اور اے سی ایل سی میں تعینات اہلکار کراچی سے انتہائی قیمتی گاڑی کے چوری یا چھینے جانے کے بعد ملزموں اور گاڑی مالکان کے درمیان معاملات بھی طے کرواتے ہیں اور اپنا حصہ رکھ کر مالک کو گاڑی بھی واپس دلواتے ہیں۔ذرائع کے مطابق اینٹی کارلفٹنگ سیل میں تعینات اہلکاروں کو شہر کے چھوٹے وبڑے تمام کار و موٹر سائیکل لفٹرزکا علم ہے کہ کون کس جگہ واردات کرتا ہے لیکن اے سی ایل سی میں موجود چند ایسی کالی بھیڑوں کو کچھ برس سالوں پیش تر بھی گرفتار کیا گیا تھا لیکن اگر یہ سلسلہ تواتر سے جاری رہتا ہے تو صورتحال میں بہتری آسکتی ہے۔  ٭

محمد کاشف نعیم

Post a Comment

0 Comments