کراچی میں نیشنل ایکشن پروگرام پر سختی سے عملدرآمد کی وجہ سے حالات میں کچھ بہتری آئی تھی اور شہری کسی حد تک سکھ کا سانس لے رہے تھے کہ شہر ایک بار پھر دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائم کی زد میں آگیا ہے۔ اسٹریٹ کرائم اس دھڑلے سے کیے جا رہے ہیں کہ شہری رات ہی میں نہیں دن کے اجالے میں بھی انفرادی اوراجتماعی طور پر لوٹے جارہے ہیں۔
بینک ڈکیتیاں ہو رہی ہیں۔ ڈاکو دن کے اجالے میں بینکوں سے لاکھوں نہیں کروڑوں روپے لے جا رہے ہیں۔ غریب عوام بینکوں سے اپنی ضرورتوں کے لیے چھوٹی موٹی رقمیں نکالتے ہیں تو لٹیرے ان سے یہ رقمیں بھی کھلے عام چھین لیتے ہیں۔ اے ٹی ایم کے باہر ڈاکو رقم نکالنے والوں کے منتظر رہتے ہیں ،جیسے ہی وہ باہر نکلتے ہیں، ان سے رقم چھین لی جاتی ہے انتظامیہ بے بس ہے لٹیرے آزاد ہیں۔
ان اسٹریٹ کرائم کے ساتھ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں ناقابل یقین اضافہ ہوگیا ہے، پچھلے 9 دن میں صحافیوں اور اہلکاروں سمیت 20 افراد کو قتل کردیا گیا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں صحافیوں کا قتل جاری ہے۔
9 ستمبر کو کراچی میں ایک سینئر صحافی آفتاب عالم کو نارتھ کراچی میں ان کے گھر کے سامنے انتہائی بیدردی سے قتل کردیا گیا جس کے خلاف صحافی برادری سراپا احتجاج ہے، اسی روز پیلا اسکول کے قریب ایک بیکری پر فائرنگ کرکے بیکری کے مالک اور ملازم کو قتل کردیا گیا۔ 10 ستمبر کو منظور کالونی کراچی میں ایک حافظ قرآن اس کی اہلیہ اور دو بچوں کو نہ صرف بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا گیا بلکہ اس کے گھر کو آگ بھی لگادی گئی۔ 9 سالہ بچے حماد کے گلے پر چھری پھیر دی گئی۔
پچھلے دن معروف سماجی شخصیت سبین محمود کے قتل کے عینی گواہ پولیس اہلکار کو سر عام قتل کردیا گیا۔ قتل و غارت کی اس نئی لہر نے ایک بار پھر اہل کراچی کو سخت خوف و دہشت میں مبتلا کردیا ہے اور پچھلے کچھ عرصے سے شہر میں امن و امان کی فضا میں جو بہتری آئی تھی ایک بار پھر وہ خوف ودہشت میں بدل گئی ہے ۔ ایک بار پھر کراچی کے شہری اپنے آپ کو گھروں کے اندراورگھروں کے باہر غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔
کراچی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ٹریفک کے سپاہیوں کو جگہ جگہ اس آزادی سے قتل کیا جا رہا ہے کہ ٹریفک کے سپاہی اپنی ڈیوٹیاں دینے سے گریزاں ہیں اور چھٹیوں پر جا رہے ہیں۔ یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ٹریفک پولیس کی حفاظت کے لیے تین سو پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹی لگادی گئی ہے، ماضی میں جب شہر میں جرائم کی بھرمار تھی اور جرائم پیشہ لوگ دھڑلے سے جرائم کا ارتکاب کر رہے تھے تو پولیس اسٹیشنوں کی چھتوں پر پہریداروں کو متعین کیا جاتا تھا اور پولیس اسٹیشنوں کے گیٹ اندر سے بند کر لیے جاتے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی جیسے میلوں پر پھیلے دوکروڑ سے زیادہ آبادی والے شہر میں مجرموں کو جرائم کے ارتکاب سے روکنا آسان نہیں، لیکن دنیا کے بیشتر بڑی آبادیوں والے شہروں میں نہ صرف جرائم کی روک تھام میں کامیابی حاصل کی جا رہی ہے بلکہ شہری خوف و دہشت سے بے نیاز آزادانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان شہروں اور ملکوں کی انتظامیہ اپنی ذمے داریوں کو ایمانداری اور فرض شناسی اور قومی جذبے کے ساتھ ادا کرتی ہے۔
پاکستان کا شمار ایسے ملکوں میں ہوتا ہے جو دہشت گردی اور نہ ہی انتہا پسندی کے حوالے سے صف اول میں کھڑے ہوئے ہیں اور یہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی نہ اتفاقیہ ہے نہ ملک کے کسی ایک علاقے تک محدود ہے، سارا ملک اس کی زد میں ہے اور یہ کارروائیاں اس قدر منظم اور منصوبہ بند طریقوں سے کی جا رہی ہیں کہ ان کی ناکامیوں کا بہت کم امکان رہتا ہے۔
ہمارے وزیر داخلہ نے دینی مدارس کے منتظمین کے ایک نمایندہ اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے ایک بہت ہی اہم بات کی ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ طاقت سے کرنے کے ساتھ ساتھ جوابی نظریاتی جنگ سے بھی کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ دہشت گرد طاقتیں اپنی اس جنگ کو نظریاتی جنگ قرار دیتے ہیں جس کا مقصد ساری دنیا میں اسلام کا نفاذ بتایا جاتا ہے اور اس مقدس جنگ ہی کے نام پر سیدھے سادے نوجوانوں کو خودکش حملوں کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ضرب عضب آپریشن نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے لیکن اس کا دائرہ کار شمالی وزیرستان تک محدود ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردوں نے شمالی وزیرستان کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنالیا تھا۔ ضرب عضب کی وجہ سے شمالی وزیرستان بڑی حد تک دہشت گردانہ سرگرمیوں سے محفوظ ہوگیا ہے لیکن شمالی وزیرستان سیکڑوں میلوں پر پھیلا ہوا ایک ایسا پہاڑی علاقہ ہے جہاں چھاپہ مار جنگ کی طرز پر لڑنے والوں کے لیے بڑی سہولتیں مہیا ہیں ۔
اس وسیع و عریض پہاڑی علاقے میں کافی فاصلوں پر سیکیورٹی فورسز کی چوکیاں قائم ہیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہا پسند طاقتیں ان چوکیوں پر رات کے اندھیرے میں حملہ کرتی ہیں جس کی وجہ سیکیورٹی فورسز کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن آفرین ہے ان بہادروں پر کہ وہ جانوں کی قربانیاں دے کر بھی ان غیر محفوظ جگہوں پر اپنی قومی ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں۔
ہم نے اس حقیقت کی بار بار نشان دہی کی ہے کہ دہشت گرد بہت منظم اور منصوبہ بند طریقوں سے اپنے اہداف پر حملے کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کامیاب رہتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ہماری کارروائیاں افراتفری غیر منظم اور غیر منصوبہ بند ہوتی ہیں جس کی وجہ سے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے دہشت گردوں نے اسی منظم منصوبہ بندی کے ساتھ ضرب عضب کے آغاز سے بہت پہلے دہشت گردوں کو ملک کے چپے چپے تک پھیلادیا تھا ۔
کراچی میں خاص طور پر بڑی تعداد میں انتہا پسندوں کا اجتماع کیا گیا کیونکہ یہ شہر مالی اعتبار سے سونے کی چڑیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ منظم دہشت گردوں کے ساتھ دوسرے صوبوں سے جرائم پیشہ گروہوں کی بڑی تعداد کراچی آگئی ہے اور بڑے بڑے جرائم کے ساتھ ساتھ اسٹریٹ کرائم کا دھڑلے سے ارتکاب کر رہی ہے جس کا تدارک ایک ایماندار فرض شناسی اور محب وطن انتظامیہ ہی کرسکتی ہے۔ ہماری سول اور فوجی قیادت بار بار اس عزم کا اظہار کر رہی ہے کہ ’’آخری دہشت گرد کے خاتمے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔‘‘ یہ ایک ہمت افزا بات ہے لیکن اگر اسی جنگ میں یکسوئی نہیں رہی اور توجہ بٹی رہی تو مشکلات کا سامنا ہوگا۔
ظہیر اختر بیدری
0 Comments