Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی میں اغواء برائے تاوان....

سال گزشتہ جہاں بہت سارے غم اور دکھ دے کر رخصت ہوچکا ہے ‘ وہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے شہر میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں کسی حد تک کمی کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے ۔اغواء برائے تاوان شہر ِکراچی میں بسنے والے ہر اس شخص کا مسئلہ بنا ہوا ہے جو کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور شہر قائد کے باسیوں کے لیے سٹریٹ کرائم ،بھتہ خوری اورٹارگٹ کلنگ کی طرح اغواء برائے تاوان بھی ایک تیزی کے ساتھ ابھرتا ہوا جرم ہے جوشہر میں فعال جرائم پیشہ عناصر کے لیے تھوڑی سی محنت کر کے بڑی رقم کمانے کا آسان طریقہ بن چکا ہے۔   

سی پی ایل سی چیف احمد چنائے کا کہنا ہے کہ دسمبر میں اغوا برائے تاوان کی ایک واردات ہوئی جب کہ مغوی کا باحفاظت بازیاب کر لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں کافی حد تک کمی آئی ہے جس کی بنیادی وجہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث گروہوں کا خاتمہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس طرح کی وارداتوں میں ملوث گروپوإ کا خاتمہ کیا جاچکا ہے جن میں اندرون سندھ اور حب، بلوچستان کے گروہ بھی شامل ہیں جس کے باعث اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں کمی آئی ہے اور ہم کراچی کے شہریوں کو بہت یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیںکہ وہ اب سکون کا سانس لے سکتے ہیں ۔ اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے خاتمے لیے سال2014میں بنائی گئی رینجرز ٹاسک فورس کے سربراہ نجیب دانے والا کا کہنا ہے کہ ہم نے ایک سال کے دوران اغوا برائے تاوان میں ملوث 16گروہوں کا خاتمہ کیا اور سالِ گزشتہ کے دوران بھتہ خوری کے 84کیسوں کو حل کیا جس کے بعد ان ورداتوں میں نمایاں کمی آئی ہے اور اس حوالے سے تشہیری مہم بھی جاری ہے کہ ان وارداتوں کے سدِ باب کے لیے عوام ان سے رابطہ کریں ۔

 انہوں نے کہا کہ آر ٹی ایف نے نہ صرف بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان میں ملوث ملزموں کو گرفتار کیا بلکہ 16لاپتہ لڑکیوں کو بھی اپنے خاندان والوں سے دوبارہ ملوانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اغوا ء برائے تاوان کی وارداتوں کے سدِباب کے لیے کام کرنے والے افسرو ں کا کہنا ہے کہ اغوا برائے تاوان کے گروہ بڑے منظم ہوتے ہیں‘ ریکی کے لیے الگ ٹیم ہوتی ہے ، جب کہ ہدف کو اغوا کر کے دوسرے ملزموں کے سپرد کردیا جاتا ہے جو انہیں شہر سے باہر یا دوسرے صوبے میں منتقل کردیتے ہیں‘ اس دوران راستے میں آنے والے کچی آبادیوں یا گوٹھ میں قائم مکانوں میں رکھا جاتا ہے۔ 

اس دوران مغوی کے گھر والوں سے رقم کا مطالبہ جاری رہتا ہے‘ اگر بات بن گئی تو ٹھیک ہے ،دوسری صورت میں انہیںکسی دوسری پارٹی کے سپرد کردیا جاتا ہے‘ اس طرح چند لاکھ روپے کے لیے اٹھائے گئے مغوی کی قیمت کروڑوں تک چلی جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بعض مقامات پر سگنل یا دیگر چیزیں کام نہیں کرتی تو ہمیں مقامی کھوجیوں کی بھی مدد لینا پڑتی ہے۔ اغواء برائے تاوان جہاں ایک طویل مدتی کام ہے‘ وہاں شہر میں ایک دوسری بڑی وشارٹ ٹرم کڈنیپنگ بھی ہے جس میں ایک شخص کو اغوا کر کے اسے شہر میں گھمایا جاتا ہے اور اس دوران اس کے گھر والوں سے پیسوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور پیسے کسی مخصوص مقام پر منگوا کر مغوی کو چھوڑا جاتا ہے ۔

 اس حوالے سے سے ایس پی‘ اے وی سی سی مقدس حیدر کا کہنا ہے کہ شارٹ ٹرم کڈنیپنگ کے بہت سارے گروہوں کا خاتمہ کیا جاچکا ہے تاہم اس کے باوجود شارٹ ٹرم کڈنیپینگ میں اہم مسئلہ ان واقعات کا رپورٹ نہ ہونا ہے تاہم اس کے سدباب کے لیے مختلف ٹیمیں کام کررہی ہیں اور امید ہے کہ جلد ہی ان کا خاتمہ کردیا جائے گا۔  ٭

عاطف رضا

Post a Comment

0 Comments