Ticker

6/recent/ticker-posts

سرکلر ریلوے اور کراچی کے عوام....


جاپان نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا منصوبہ ترک کر دیا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار جاپان سے کئی ترقیات منصوبے لے کر آئے مگر ان منصوبوں میں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا منصوبہ شامل نہیں ہے۔ کراچی کے شہریوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کے بہتر ہونے کی جو امید قائم ہوئی تھی وہ ختم ہو گئی۔
ان کے مقدر میں ٹوٹی پھوٹی بسیں اور چینی ساختہ موٹر سائیکل چنگ جی رہ گئے ہیں۔ جاپان کے ترقیاتی ادارے ’’جائیکا‘‘نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے خطیر مقدار میں مالیاتی گرانٹ اور ٹیکنیکل امداد فراہم کرنے کی پیش کش کئی سال پہلے کی تھی۔ جاپانی ماہرین کو کراچی سرکلر ریلوے کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے کراچی کا دورہ کرنا تھا۔ مگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں امن و امان کی صورت حال کو بہتر نہ بنا سکیں اور سیکیورٹی کلیئرنس کا معاملہ جاپانی ماہرین کے دورے کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔

صوبائی حکومت کے ذمے سرکلر ریلوے کی زمینوں سے تجاوزات کے خاتمے کا فریضہ تھا۔ سندھ حکومت نے سرکلر ریلوے کی زمین پر قابضین سے خالی کرانے کے لیے کئی سال تک اجلاس کیے مگر عملی طور پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ کراچی شہر کے پبلک ٹرانسپورٹ کی تاریخ کچھ عجیب سی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت کراچی ایک چھوٹا شہر تھا۔ یہ شہر کیماڑی کی بندرگاہ سے شروع ہوکر لیاری، گارڈن، رنچھوڑ لائن، پارسی کالونی، دادابھائی نوروجی روڈ اور جیل پر ختم ہو جاتا تھا۔ دوسرا حصہ کلفٹن پر ختم ہوتا تھا۔ ملیر کا شاداب علاقہ لیاری سے دور تھا۔ جو نیشنل ہائی وے سے منسلک تھا۔ شہر میں بڑی بسیں ، ٹرام اور بگھیاں چلتی تھیں۔ کراچی میں ٹرام بمبئی سے پہلے چلی تھی۔ ٹرام کیماڑی سے ٹاور، بولٹن مارکیٹ ، چاکیواڑہ، صدر، کینٹ اسٹیشن اور سولجر بازار تک جاتی تھی۔

آزادی کے بعد جب لاکھوں لوگ کراچی میں آباد ہوئے تو بہت سی کالونیاں اور سوسائیٹز بن گئیں۔ یوں لالو کھیت، فیڈرل بی ایریا ، ایک طرف اور دوسری طرف ڈرگ کالونی، ملیر لانڈھی تک پھیل گیا۔ پھر بڑی بسیں کم پڑ گئیں۔ صنعتی ترقی کی بناء پر لوگ پنجاب اور خیبر پختون خوا سے آ کر کراچی میں آباد ہونے لگے تو پٹھان کالونی، بنارس کالونی آباد ہوئی۔ شیر شاہ، مہاجر کیمپ، لانڈھی وغیر ہ میں آبادی بڑھ گئی۔ ایوب خان کی حکومت نے ٹرانسپورٹ کے مسائل کے حل کے لیے سرکلر ریلوے چلانے کا فیصلہ کیا۔ سرکلر ریلوے ایک طرف سٹی اسٹیشن سے پپری تک، مرکزی ریلوے لائن استعمال کر تی تھی۔

دوسری طرف اس کی پٹری کے پی ٹی، وزیر مینشن، آگرہ تاج، بلدیہ، سائٹ، جامعہ کراچی، ناظم آباد، گلشن اقبال، گلستان جوہر سے ہوتی ہوئی ڈرگ روڈ اسٹیشن پر مرکزی لائن سے منسلک ہو جاتی تھی۔ وزیر مینشن سے سائٹ، ناظم آباد آنے والے ریل گاڑی کا اختتام پپری پر ہوتا تھا۔ سرکلر ریلوے نے پپیری، لانڈھی، شاہ فیصل کالونی سے کینٹ اسٹیشن تک کا سفر مختصر کر کے 20 سے 30 منٹ پر محیط کر دیا تھا۔ سٹی اسٹیشن `آئی آئی چندریگر روڈ پر ہونے کی بناء پر چندریگر روڈ اور اطراف کے علاقوں کے سرکاری دفاتر، مالیاتی اداروں، بینکوں، اسٹاک ایکسچینج اور دوسرے اداروں میں کام کرنے والے لاکھوں افراد آسانی سے سفر کرتے تھے۔ 70 اور 80 کے دہائی کے دور میں سرکلر ریلوے سے سفر کرنے والے مسافر بتاتے ہیں کہ صبح کے وقت پر 10 سے 15 منٹ کے وقفے سے چلتی تھی۔

یوں لوگ اپنے وقت کے مطابق اسٹیشن پر پہنچ جاتے۔ پھر شام کے اوقات میں سٹی اسٹیشن سے اسی طرح سرکلر ریلوے چلتی تھی۔ یوں یہی صورتحال وزیر مینشن، ناظم آباد جانے والی گاڑیوں کی ہوتی تھی۔ سرکلر ریلوے کی بناء پر کراچی شہر کی مرکزی شاہراہوں، شاہ راہ فیصل اور ایم اے جناح روڈ پر ٹریفک کا دباؤ کم رہتا تھا۔ اسی دوران ٹرانسپورٹ مافیا ایک مضبوط گروہ کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ سرکلر ریلوے کے نظام میں خلل پڑنا شروع ہوا۔ ریلوے کی بیوروکریسی نے اس طرح ریلوے کا نظام الاوقات تیار کرنا شروع کیا کہ صبح و شام کے اوقات میں مسافروں کو سرکلر ریلوے میسر نہ ہو۔ پھر ریل کے انجن راستوں میں خراب ہونے لگے۔

ڈبوں میں صفائی کا نظام ختم ہوا۔ بلب اور پنکھے غائب ہو گئے۔ بلا ٹکٹ سفر کرنے والے مسافروں کی حوصلہ افزائی کے لیے چیکنگ کا نظام کمزور پڑا۔اس مجموعی صورتحال میں مسافروں کا اعتماد کمزور ہونے لگا اور ریلوے کی آمدنی بھی کم ہو گئی۔ ریلوے حکام نے سرکلر ریلوے کے نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کے بجائے گاڑیوں کی تعداد کم کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ یوں آہستہ آہستہ سرکلر ریلوے ختم ہوتی چلی گئی۔ سرکلر ریلوے کے بند ہونے کے بعد ریل کی پٹریوں اور ریلوے اسٹیشن پر لینڈ مافیا نے قبضہ کرنا شرو ع کیا۔ کراچی شہر کی بد قسمتی یہ ہے کہ ریلوے کی زمین پر قبضہ کرنے والوں میں لینڈ مافیا کے ساتھ سرکاری محکمے بھی شامل ہیں۔

لینڈ مافیا کی سرپرستی برسر اقتدار حکومتیں، سیاسی جماعتیں اور بیوروکریسی کرتی رہی ہے۔ کراچی کی نمایندگی کی دعویدار جماعتوں نے سرکلر ریلوے کی زمینوں پر کچی بستیاں آباد کرنے کے لیے نئے طریقے وضح کیے اور ان بستیوں کو لیز مل گئی اور خوبصورت مکانات تعمیر ہو گئے۔ حکومت سندھ اس لینڈ مافیا سے لڑنے کے لیے تیار نہیں۔ جاپانی حکومت کی ہدایت پر سرکلر ریلوے کی زمینوں کو خالی کرانے کا کام نہیں ہو سکا۔ جب ڈاکٹر عشرت العباد نے گورنر سندھ کا عہدہ سنبھالا تھا تو سرکلر ریلوے کی بحالی ان کے ایجنڈے میں شامل تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب ایم کیو ایم سندھ کی حکومت میں اہم حصے دار تھی۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے پرویز مشرف ملک کے صدر اور شوکت عزیز وزیر اعظم تھے۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے وزیر اعظم شوکت عزیز کو سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے تیار کیا اور یوں محسوس ہونے لگا کہ وفاقی حکومت اس معاملے میں دلچسپی لے رہی ہے پھر کراچی کے عوام کو سرکلر ریلوے کی بحالی کی خوش خبری دی گئی۔ مگر اسلام آباد کی بیوروکریسی نے اس منصوبے میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔

نہ اس وقت کی سندھ حکومت نے کوئی لائحہ عمل تیار کیا۔ ایک دن اخبارات میں ایک بڑی تصویر شایع ہوئی جس میں وزیر اعظم شوکت عزیز کو سرکلر ریلوے کا افتتاح کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ مگر یہ ریل گاڑی صرف سٹی اسٹیشن سے ڈرگ روڈ تک چلی۔ اس سرکلر ریلوے کے ٹکٹ فروخت کرنے کا ٹھیکہ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک ٹھیکیدار کو دیا گیا۔ جو چند ماہ تک نقصان برداشت کرنے کے بعد ٹھیکہ چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ سرکلر ریلوے کا معاملہ اخبارات کی خبروں اور اداریوں تک محدود ہو گیا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے پرویز مشرف کی حکومت ختم ہوئی۔ اور کراچی کے ایک اور باسی آصف علی زرداری صدر پرویز مشرف کے جانشین بنے۔

صدر زرداری نے اپنے دور صدارت میں سیکڑوں غیر ملکی دورے کیے۔ وہ متعدد بار چین گئے ان کے دوروں کی خبروں میں چین کی مختلف کمپنیوں سے ایم او یو سائن کرنے کا ذکر ہوتا تھا۔ مگر کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ کا معاملہ ان میں کبھی شامل نہیں ہو سکا۔ آصف زرداری نے کراچی شہر کو ایک بلڈر کے حوالے کر دیا۔ جو مغل شہنشاہ جہانگیر اور شاہ جہاں سے مقابلہ کر رہا ہے۔ مگر حکومت سندھ کے ایجنڈے میں سرکلر ریلوے شامل نہیں ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں لاہور میں میٹرو بس کا منصوبہ کامیابی سے چل رہا ہے۔ چند مہینوں بعد راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہری بھی جدید میٹرو بسوں میں سفر کریں گے۔ کراچی کے شہری سوچتے ہیں کہ دنیا کے جدید شہروں کی طرح کیا کبھی کراچی میں انڈر گراؤنڈ ٹیوب چلے گی؟ مگر میاں صاحب کا دور بھی انھیں مایوس کر رہا ہے۔ شہری کھٹارہ بسوں کے دھکے کھا رہے ہیں۔

ڈاکٹر توصیف احمد خان

Post a Comment

0 Comments