کراچی شہر ان دنوں ضمنی انتخابات کے باعث سیاسی جماعتوں کے جلسے جلوسوں کا میدان بنا ہوا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ ان سیاسی جماعتوں کے منشور میں ترجیحی مسائل کیا ہیں جن کو وہ ایوان میں پہنچنے کے بعد حل کرنے کے لیے سنجیدگی سے کوشش کریں گے۔
راقم یہاں ان چند ایک مسائل کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ جن کو شاید مسئلہ ہی نہیں سمجھا جاتا، نہ ہی انھیں حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، حالانکہ یہ شہریوں کے اہم ترین مسائل میں سے ایک ہیں۔
کراچی شہر میں ان دنوں آپریشن جرائم پیشہ افراد کے خلاف بھی جاری ہے اور تجاویزات کے خلاف بھی جاری ہے۔ نہ صرف بڑے بڑے شادی ہال وغیرہ مسمار کیے گئے بلکہ گلی کوچوں میں ٹائر پنکچر والوں کے چند فٹ کے کیبن وغیرہ بھی سڑک کے کناروں سے صاف کردیے گئے۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کراچی کے شہریوں کی ایک بڑی رہائشی اسکیم جو اسکیم نمبر 33 کے نام سے معروف ہے۔ غیر ملکی افغانیوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کی آبادی کے باعث کم از کم تیس برسوں سے ناقابل استعمال بنی ہوئی ہے۔
کراچی کے شہری جن کے پلاٹس یہاں موجود ہیں وہ دن کے وقت بھی اپنے پلاٹس دیکھنے کے لیے اسکیم نمبر 33 واقع سپر ہائی وے جاتے ہوئے گھبراتے ہیں، کیوں کہ دن کے وقت بھی یہاں کی آبادیوں کے جرائم پیشہ افراد انھیں لوٹ لیتے ہیں۔
نواز شریف کی جانب سے موٹر وے بنانے کے اعلان کے بعد موٹر وے کے راستے میں آنے والی ان غیر قانونی آبادیوں کو وہاں سے ہٹادیاگیا ہے، تاہم ناجائز آبادیاں ابھی بھی قائم ہیں جن کے باعث 40 سال قبل پلاٹ بک کرانے والے کراچی کے شہری آج بھی اپنے پلاٹ کے حصول کا صرف خواب ہی دیکھتے ہیں۔
جس طرح شہر کے دیگر علاقوں میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیاں کی گئی ہیں اور تجاوزات کا بھی خاتمہ کیا گیا ہے، ضروری ہے کہ سہراب گوٹھ اور اس کے قرب وجوار کے علاقے میں بھی آپریشن کرکے تجاوزات اور جرائم پیشہ افراد کا قلع قمع کیا جائے۔
ایک اور اہم ترین مسئلہ یہاں کے باسیوں کے لیے مناسب رہائش اور ذاتی رہائشی ہے، جس طرح یہاں سیاسی جماعتوں میں شامل بعض افراد نے کراچی کی زمین کی بندر بانٹ کی ہے اور کچھ لوگوں نے مافیا بن کر یہاں زمینوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کیا ہے اس کے باعث اس شہر میں پلاٹ اور مکانات کی قیمتیں انتہائی تیزی سے بڑھی ہیں، اس مافیا کے کردار کے باعث آج ایک 19 گریڈ کا ایماندار سرکاری افسر اپنا ذاتی مکان حاصل نہیں کرسکتا۔
اس سلسلے میں راقم کی تجویز ہے کہ پلاٹس اور مکانات کی خرید و فروخت کو ’’کاروبار‘‘ کی شکل سے نکالنے کے لیے عملی کوشش کی جائے مثلاً یہ قانون بناکر عمل بھی کرایا جائے کہ کوئی بھی شخص ذاتی رہائش کے علاوہ ایک سے زائد مکانات، پلاٹس نہیں رکھ سکتا، جس کے پاس ایک سے زائد ہو اسے موقع دیا جائے کہ انھیں فروخت کرکے کوئی اور کاروبار کرلے۔
اسی تناظر میں ایک اور مسئلہ بھی اہم ترین ہے جو طرز رہائش کا ہے، رہائشی یونٹس بناکر فروخت کرنے خصوصاً رشوت اور سیاسی بنیادوں پر سستے پلاٹس حاصل کرکے کاروباری حضرات کثیر المنزلہ رہائشی یونٹس بناکر فروخت کررہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ دولت کمائی جاسکے۔ آج کل بلند عمارتوں کی تعمیرات اس کثرت سے جاری ہے کہ شہر کے اندر آبادی کا دباؤ بڑھ رہا ہے، محض 240 گز کے پلاٹس پر دس دس منزلہ فلیٹس (اور نیچے دکانیں) بناکر فروخت کیے جارہے ہیں۔
جن میں روشنی اور ہوا کا مناسب گزر بھی نہیں ہے، جس شہر میں پہلے ہی بجلی کا بحران ہو، پانی کی قلت ہو وہاں یہ طرز تعمیر بجلی کی کھپت کو اور بھی بڑھادیتی ہے، کیوں کہ ایسی طرز رہائش میں دن کے وقت بھی بلب اور پنکھوں کی ضرورت پڑتی ہے، دوسری جانب اس قسم کی پتلی دبلی اور اونچی عمارتیں کسی حادثے کی صورت میں بڑی تعداد میں انسانی ہلاکتوں کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
ایمرجنسی میں کسی دس منزلہ عمارت سے رہائشیوں کا ایک ساتھ نیچے اترنا بھی ممکن نہیں ہوسکتا اور خدانخواستہ کوئی عمارت ’’مارگلہ ٹاور‘‘ کی طرح حادثے کا شکار ہوجائے تو پھر کیا ہوگا؟ ایک عمارت اپنے ارد گرد کی کئی اور عمارتوں کو بھی لے کر زمین بوس ہوجائے گی اور پھر ہمارے اس شہر میں تو فائر ٹینڈر بھی ضرورت کے مطابق نہیں ہیں اور جو ہیں ان کو وقت پر پانی بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ عمارت کا ملبہ ہٹانے کے لیے جدید مشینری و آلات بھی نہیں ہیں، مارگلہ ٹاور اسلام آباد کی طرح کسی حادثے کی صورت میں ہمیں غیر ملکی امدادی ٹیموں پر انحصار کرنا پڑے گا جن کے پہنچنے تک تو عمارتوں میں دبے لوگ دوسرے جہاں پہنچ جائیں گے۔
ہمارے نمائندوں اور سیاسی جماعتوں کو جو عوام سے ہمدردی کا دعویٰ رکھتی ہیں انھیں غور کرنا چاہیے کہ اس شہر میں اس قدر تیز رفتاری سے بلند و بالا عمارتوں کا کاروبار کیوں فروغ پارہا ہے اور اس کی قیمت عوام کو کس قدر ادا کرنا پڑے گی؟ آبادی میں تیزی سے اضافے اور اس طرز کی رہائشی کے باعث اب تو کراچی کے وہ علاقے جو 20 یا 30 سال قبل آباد ہوتے تھے (مثلاً نارتھ کراچی) وہاں بھی زمین میں پانی کی سطح انتہائی نیچے چلی گئی ہے اور بعض جگہ تو 100 فٹ کھدائی کے بعد بھی پانی دستیاب نہیں، لوگ اپنے گھروں میں دوبارہ سے بورنگ کررہے ہیں۔
بلند و بالا عمارتوں کی تعمیرات سے زمین کی جیالوجی پوزیشن بھی متاثر ہورہی ہے لیکن ہم سب خواب غفلت میں پڑے ہیں۔ بغیر صحن کے اس طرز رہائش نے شہریوں کی کثیر تعداد کو صحت کے مسائل سے دوچار کر رکھا ہے، بچوں کے لیے نہ گھر میں صحن، نہ اسکول میں، گھر کے باہر علاقے کے تمام خالی پلاٹس اور میدان لینڈ مافیا کی نذر ہوگئے، یوں اس کلچر نے ڈاکٹروں کے کلینکس اور اسپتال آباد کردیے ہیں۔
آیئے غور کریں، جس معاشرے میں بچوں کو گھر میں، اسکول میں اور محلے میں بھی کھیلنے کودنے کے لیے تازہ ہوا، صاف ستھرا ماحول میسر نہ ہو وہاں اسپتال آباد نہ ہوں گے تو کیا ہوگا؟ راقم کی تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے نمائندوں سے اور خاص کر ان سے جو عوام کے دکھ درد کا مداوا کرنے کی پوزیشن میں ہیں، گزارش ہے کہ مندرجہ بالا پیش کردہ مسائل پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیا جائے اور ان کے حل کے لیے کوشش کی جائے کیوں کہ جب معاشرے کے افراد کو ذہنی سکون ہی حاصل نہ ہوگا تو وہ اپنا معاشرتی کردار احسن طریقے سے کیسے ادا کریں گے؟
ڈاکٹر نوید اقبال انصاری
0 Comments