Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی کے دھوبی گھاٹ کی یادیں

کراچی کا دھوبی گھاٹ نہ صرف غیرملکی سیاحوں کے لیے بلکہ مقامی منچلوں کے لیے بھی بہت کشش رکھتا تھا۔ یہ شہر کی بیرونی حدود میں لیاری ندی کے کنارے واقع تھا، جہاں تک پہنچنے کے لیے کراچی کے چڑیا گھر کی طرف سے راستہ جاتا تھا ۔ وہاں جا کر دیکھیں تو ایک جہان آباد نظر آتا تھا۔ سینکڑوں کی تعداد میں بھٹیاں اورحوض بنے ہوئے تھے جن کے ساتھ سیمنٹ کے چھوٹے چبوترے ہوتے جہاں پر وہ کپڑوں کو پٹخ پٹخ کر دھوتے تھے ۔ ان کا سارا کاروبار ایک بہت ہی خوب صورت اور منظم انداز میں چلتا تھا۔ یہ لوگ اپنے پہلے سے مخصوص علاقوں میں گھر گھر جا کر دھلنے والے کپڑے اکٹھے کرتے تھے ۔ پھر خاتون خانہ کی موجودگی میں ان کو گنا جاتا اور وہ خاتون ان کپڑوں کی تفصیل اپنے پاس لکھ کر رکھ لیتی تھی ۔ 

دھوبی ایک اَن مٹ کالی سیاہی سے کپڑوں پر اس گھر کے لیے مخصوص ایک خاص نشان ایسی جگہ لگا دیتا تھا جو باہر سے نظر نہیں آتا تھا ۔ یہی وہ نشان ہوتا جو آخری وقت تک کپڑوں کی شناخت کے لیے استعمال کیا جاتا۔ دھوبی سب گھروں سے گٹھڑیوں میں کپڑے باندھ کر باہر کھڑی گدھا گاڑی پر رکھ کر دھوبی گھاٹ میں اپنے اڈے پر لے جاتا تھا۔ حیرت انگیز طور پر اکثر اس کا ایک کتا بھی اس کی گاڑی کے پیچھے چلتا ہوا وہاں تک پہنچتا تھا۔ اس کو دیکھ کر وہ محاورہ یاد آ جاتا تھا کہ’’ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا ‘‘۔ اپنے ا ڈے پر پہنچ کر وہ کپڑوں کو مروجہ طریق کار کے مطابق ، بھٹی میں سوڈا اور صابن وغیرہ میں ابال کر خوب پٹخ پٹخ کر دھوتا اور صاف پانی میں کھنگالتا اور نچوڑ کر ساتھ ہی میدان میں تین ٹانگوں والے اسٹینڈ پر تنی ہوئی رسیوں پر ٹانگ دیتا تھا ۔ 

سوکھنے کے بعد انہیں وہ اپنے گھر یا دکان پر لے جاتا اور کوئلے والی بڑی استری سے کپڑوں کو پریس کر کے واپس مطلوبہ گھر میں پہنچا دیتا تھا۔ یہاں ایک بار پھر خاتون خانہ ان کو اپنی فہرست کے مطابق چیک کرتی اور اگر سب ٹھیک ہوتا تو فوری ادائیگی کر دیتی تھی اور اگر دھلائی کے دوران کپڑوں کا کچھ نقصان ہو جاتا تو شدید قسم کا بحث و مباحثہ شروع ہو جاتا اور اسے جلی کٹی سنا کر پیسے کاٹنے کی دھمکی دیتی تھی ، لیکن یہ پیسے کبھی بھی نہ کٹتے تھے اور دھوبی مزید کچھ کہے سنے چپ چاپ پتلی گلی سے نکل جاتا تھا۔ دھونے اور مسلسل پٹخنے کے عمل میں بالخصوص مردانہ قمیصوں کے بٹن داغِ مفارقت دے جاتے تھے۔ اس مشکل سے نبٹنے کے لیے ہر گھر میں عام سے سفید بٹنوں کا ایک پیالہ بھر کے رکھا رہتا تھا ۔ 

سگھڑ خواتین تو اسی وقت ٹوٹے بٹنوں کی جگہ نئے بٹن ٹانک کر اپنا دامن صاف کر لیتی تھیں ، البتہ کچھ کو اس وقت احساس ہوتا تھا جب ان کا شوہرشور مچاتا اور شکایت کرتا۔ تب وہ سارے کام ادھورے چھوڑ کر سوئی دھاگا لے کر آ جاتی اور اسی وقت بٹن لگا کر شوہر کا منہ بند کر دیتی تھی۔ بعض اوقات یہ ایک بڑا ہی دل فریب اور رومان پرور نظارہ ہوتا جب وہ اپنے میاں کے سامنے کھڑی ہو کر اس کی زیب تن کی ہوئی قمیص پر بٹن ٹانکتی تھی اور پھر جب دانت سے اضافی دھاگا کترتی تو میاں کے کافی قریب آ جاتی تھی اورمنٹوں میں اس کا بناوٹی غصہ کافور ہو کر پیار میں ڈھل جاتا تھا۔ یہ اتنا روح پرور نظارہ ہوتا تھا کہ خاتون افسانہ نگار اس عمل کو اکثر اپنے ناولوں اور افسانوںکی زینت بنا لیتی تھیں۔

محمد سعید جاوید

(’’ایسا تھا میرا کراچی‘‘ سے اقتباس)

Post a Comment

0 Comments