ہمارے ملک میں پیدا ہونے والے سنگین مسائل کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا خواب خرگوش میں مبتلا حکمران طبقہ اس قسم کے سنگین مسائل کو پیدا ہونے سے روکنے کے لیے قبل از وقت منصوبہ بندی نہیں کرتا۔ آج کراچی پانی کے قحط کی وجہ سے کربلا کا جو منظر پیش کر رہا ہے اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ پانی کے ممکنہ قحط کو روکنے کے لیے قبل از وقت منصوبہ بندی نہیں کی گئی حتیٰ کہ مشرف دور میں پانی کی فراہمی کے لیے جو منصوبے شروع کیے گئے تھے ہماری نااہل اور غیر ذمے دار حکومتوں نے اس پر بھی عملدرآمد کی ضرورت محسوس نہ کی۔
شرم کی بات یہ ہے کہ کراچی میں پانی کے اس شدید بحران کے باوجود پانی کی فراہمی کے منصوبے K-3 اور K-4 کے لیے نہ وفاقی حکومت اپنے حصے کی رقم ادا کر رہی ہے نہ صوبائی حکومت اس حوالے سے اپنی ذمے داریاں پوری کر رہی ہے۔ کراچی محکمہ واٹر بورڈ کا کہنا ہے کہ K-4 منصوبے پر عملدرآمد کے لیے 2016-2015ء کے بجٹ میں 15 ارب روپے رکھے جانے چاہئیں۔ واٹربورڈ کے حکام کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال میں وفاقی حکومت نے 20 کروڑ روپے مختص کیے تھے لیکن صرف 8 کروڑ روپے دیے گئے۔ سندھ حکومت نے اس منصوبے کے لیے 84 کروڑ روپے مختص کیے تھے لیکن ایک پائی بھی ادا نہیں کی گئی، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
دراصل آج ہم کراچی میں بے ہنگم اور خطرناک طریقے پر بڑھتی ہوئی آبادی کا جائزہ لینے جا رہے ہیں چونکہ ہماری خواب غفلت میں پڑی ہوئی حکومت اس مسئلے کی سنگینی اور آنے والے دنوں میں کراچی میں پیدا ہونے والی ممکنہ خطرناک صورتحال سے مکمل طور پر بے خبر ہے اور اس حوالے سے کوئی جامع منصوبہ بندی کرتی نظر نہیں آ رہی ہے، اس لیے ان مہاشوں کی توجہ اس جانب مبذول کرانا ضروری ہے۔ کراچی جو کسی زمانے میں 5 لاکھ آبادی کا شہر ہوا کرتا تھا اب اس شہر کی آبادی دو کروڑ 30 لاکھ بتائی جا رہی ہے اور جس رفتار سے اس شہر کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اگر یہی رفتار جاری رہی تو مستقبل قریب میں آبادی 3 کروڑ سے تجاوز کر سکتی ہے۔
کیا ہماری محب وطن محب عوام حکومت آبادی میں اس بڑھوتری کے خطرناک مضمرات سے واقف ہے؟ یہ سوال اس لیے ضروری ہے کہ آج دو کروڑ تیس لاکھ آبادی کا یہ شہر جن گمبھیر اور سنگین مسائل کا شکار ہے اگر اس کی آبادی تین کروڑ ہو جائے اور اس کی روک تھام کی کوئی منصوبہ بندی نہ کی جائے تو اس شہر کا جو حال ہو گا اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔آبادی میں اضافے کی دو بڑی وجوہات ہوتی ہیں، ایک شرح پیدائش میں اضافہ، دوسرے اربنائزیشن، جس میں ملک کے پسماندہ علاقوں سے عوام روزگار کے لیے بڑے اور ترقی یافتہ شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ آبادی کے اضافے میں روک تھام کے بھی دو روایتی طریقے ہیں ایک یہ کہ شرح پیدائش میں کمی کی جائے جس کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔
چین جیسے خوشحال اور تیزی سے ترقی کرنے والے ملک میں اس حوالے سے سخت قانونی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ چین میں اس حوالے سے آبادی میں ہونے والا بے لگام اضافہ رک گیا ہے اور منصوبہ سازوں کو مشکلات کا سامنا نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اہم اور ضروری اقدامات کے آگے ایسی رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں کہ قومی مفاد کے اہم کام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ آبادی میں اضافہ عموماً غریب طبقات میں ہوتا ہے چونکہ غریب طبقات کی آمدنی انتہائی کم ہوتی ہے لہٰذا بچوں کی تعداد میں اضافے کا مطلب غربت میں اضافے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ خودکشیوں کا سلسلہ ان ہی طبقات میں جاری رہتا ہے جو غربت اور بھوک کا نتیجہ ہوتا ہے۔
خودکشی ہمارے مذہب میں حرام ہے لیکن خودکشیوں کے اسباب کو ختم یا کم کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی اور خیرات اور زکوٰۃ کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔شہری آبادی میں اضافے کا دوسرا بڑا سبب پسماندہ علاقوں سے غریب طبقات کی نقل مکانی ہے۔ ترقی یافتہ ہی نہیں ترقی پذیر ملکوں میں بھی اگر حکمران طبقات ملک اور عوام دوست اور تعصب اور امتیازات سے پاک ہوں تو وہ پسماندہ علاقوں میں باعزت روزگار کے مواقعے پیدا کر کے اور صنعتوں کا جال بچھا کر پسماندہ علاقوں سے نقل مکانی کو روکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں چونکہ حکمران طبقات ان مسائل کی طرف توجہ دینے کی زحمت ہی نہیں کرتے لہٰذا دیہی علاقوں سے شہروں خصوصاً کراچی کی طرف نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔ اور کراچی کچی آبادیوں کا شہر بن گیا ہے، چونکہ کراچی آنے والوں کے لیے رہائش اور روزگار کا سرکاری طور پر انتظام نہیں لہٰذا کچی آبادیاں اور جرائم اس شہر کا مقدر بن گئے ہیں۔
ان خرابیوں کو انتظامی ڈنڈے سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن انتظامیہ چونکہ کرپشن کے پاؤں پر کھڑی ہوئی ہے لہٰذا ان خرابیوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ حکمران طبقات ان خطرناک ترین مسائل سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ اور سب ٹھیک ہے کی آرام دہ کرسی پر ٹانگیں پھیلائے بیٹھے ہوئے ہیں۔ کراچی سر سے پیر تک سنگین جرائم میں لتھڑا ہوا ہے جن میں ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی، بھتہ خوری، بڑی بڑی ڈکیتیاں، اغوا اور اسٹریٹ کرائم شامل ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ان سنگین جرائم میں ملوث 90 فیصد ملزمان کا تعلق بیرون کراچی اور بیرون سندھ سے ہے۔ یہ بات بھی بار بار دہرائی جا رہی ہے کہ افغان مہاجرین کے نام پر دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کی بڑی تعداد کراچی میں سرگرم ہے اور ان کی کچی بستیاں جرائم کے اڈوں میں بدل گئی ہیں۔
کراچی کے علاوہ لاہور، پشاور اور کوئٹہ بڑے شہر بھی ہیں اور صوبائی دارالحکومت بھی۔یہاں بھی آبادی کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کے چھوٹے شہروں‘ قصبوں اور دیہات خصوصاً فاٹا اور دیگر قبائلی علاقوں کو ترقی دے کر وہاں روزگار کے مواقعے کیوں پیدا نہیں کیے جا رہے؟ اگر ان علاقوں میں روزگار کے بھرپور مواقعے پیدا کیے جائیں تو کراچی میں آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤ کم ہو جائے گا۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہ سوال کرنا پڑتا ہے کہ ہماری حکومتیں ان حوالوں سے کوئی منصوبہ بندی کر رہی ہیں؟ اس کا جواب نفی ہی میں آتا ہے۔ کراچی کو منی پاکستان کہا جاتا ہے، بلاشبہ کراچی منی پاکستان ہے لیکن جب یہ منی پاکستان مزید روزگار فراہم کرنے سے معذور ہو جائے گا اور کراچی کی بے روزگار نسلیں یہ سمجھنے لگیں گی کہ ان کے حق پر دوسرے صوبوں کے عوام نے قبضہ کرلیا ہے تو صورتحال کس قدر سنگین ہو جائے گی۔
ایلیٹ اور حکمران طبقات تو محفوظ رہیں گے کہ ریاستی مشینری ان کی حفاظت کرے گی لیکن غریب طبقات ایک دوسرے سے متصادم ہو گئے تو نقصان کس کا ہو گا؟ غریب آپس میں لڑتے اور تقسیم ہوتے ہیں تو اس میں ایلیٹ کا فائدہ ہے۔ لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے کہ غریب طبقات کو احساس ہوتا ہے کہ انھیں لڑایا جا رہا ہے تو پھر ان کا رخ استحصالی طبقات کی طرف ہو جاتا ہے، پھر وہ نہ سندھی رہتے ہیں نہ پنجابی، نہ پختون، نہ بلوچ، وہ صرف غریب ہوتے ہیں اور اپنے طبقاتی دشمنوں کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں۔
ظہیر اختر
0 Comments