Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی کیوں میتّیں گنتا رہا؟

کراچی میں شدید گرمی کی لہر میں تقریباً تیرہ سو افراد کے ہلاک ہو جانے کے کئی دن بعد بھی ہر کوئی حیران ہے کہ ایسا کیا ہوا کہ اس سال اتنے زیادہ لوگ گرمی کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

محمد بلال گذشتہ 25 سال سے ایک خیراتی ادارے کے ساتھ کام کر رہے اور ان برسوں میں وہ ہزارہا لاشوں کو ایک مقام سے دوسری جگہ لے جاتے رہے ہیں لیکن وہ بھی کہتے ہیں کہ انھوں نے کبھی گرمی سے اتنے زیادہ لوگوں کو مرتے نہیں دیکھا۔
اس مرتبہ تو ’ پورے شہر سے مسلسل لاشیں آ رہی تھیں۔
محمد بلال کراچی کی مرکزی بندرگاہ کے قریب واقع ایدھی فاؤنڈیشن کے صدر دفتر کے انچارج ہیں۔
دو کروڑ لوگوں کے اس شہر میں ایدھی کے اہلکار روزانہ اوسطاً 40 سے 50 میتّوں کو اپنی گاڑیوں میں شہر کے مختلف علاقوں سے لاتے ہیں، لیکن محمد بلال کے بقول انھیں یاد نہیں کہ اس مرتبہ انھیں کل کتنی لاشیں اٹھانا پڑیں۔

 ہم ان ابتدائی لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے اتوار 21 جون کو خطرے کی گھنٹی بجانا شروع کر دی تھی جب گرمی سے مرنے والوں کی لاشیں غیر معمولی تعداد میں ہمارے مردہ خانے پہنچنا شروع ہوئیں۔
  ایدھی کے مردہ خانے کو کراچی شہر کا سب سے بڑا مردہ خانہ سمجھا جاتا ہے لیکن ان دنوں یہاں پر موجود سہولیات بھی ناکافی ثابت ہو رہی تھیں۔
’اتوار کے بعد کے آٹھ دنوں میں ہمیں 900 میتّیں وصول ہوئیں۔ ہمیں کئی ایک گھرانوں کو انکار کرنا پڑا۔ شہر میں قبرستانوں میں تدفین کے لیے جگہ بھی کم پڑ گئی۔

تقریباً 260 لاشیں ایسی تھیں جن کی کبھی شناخت نہیں ہو سکی۔ سرکاری حکام کے خیال میں ان میں اکثریت بے گھر افراد کی تھی جو سڑکوں پر سوتے تھے یا منشیات کے عادی لوگوں کی۔ ایسی لاشیں جن کا کوئی والی وارث سامنے نہیں آتا اور اکثر جن کا نام بھی معلوم نہیں ہو پاتا، انھیں ایدھی کے اپنے قبرستان میں دفنا دیا جاتا ہے۔

گذشتہ ماہ کراچی ہی نہیں بلکہ سندھ اور بلوچستان کے زیادہ تر علاقوں میں درجۂ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو گیا، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کراچی میں اتنی زیادہ اموات کیوں ہوئیں۔

کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مرتبہ گرمی رمضان میں پڑی جب اکثر لوگ روزے سے ہوتے ہیں؟ یا اس کی وجہ بجلی کی طویل بندش اور کمی اور کراچی میں پانی کی شدید قلت تھی؟ اس کے علاوہ کئی لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کی وجہ شاید فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیاں ہیں جن کی وجہ سے اس قدر شدید گرمی پڑ رہی ہے۔

جواب اتنا واضح نہیں ہے، اگرچہ سرکاری اہلکاروں کا اصرار ہے کہ شاید یہ ان تمام عنصر کا مجموعی اثر تھا کہ گرمی قابو سے باہر ہو گئی تھی جس کے نتیجے میں سینکڑوں لوگ مارے گئے۔

جو لوگ گرمی کی اس لہر میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ان میں بڑی تعداد کمزور اور نادار افراد کی تھی اور مرنے والوں کی اکثریت ان ضعیف لوگوں پر مشتمل تھی جو اس لہر کے آنے سے پہلے ہی بیمار تھے۔

شہر کے کم آمدنی والے علاقے بلدیہ ٹاؤن کے 65 سالہ رہائشی شریف علی کہتے ہیں کہ ’ میں کراچی میں کئی شدید موسم گرما دیکھ چکا ہوں لیکن اس قدر دم گھوٹنے والی گرمی کا تجربہ مجھے آج سے پہلے نہیں ہوا۔‘ شریف علی کی بیمار اہلیہ کو اس گرمی میں ’ہِیٹ سٹروک‘ ہوا اور وہ چل بسیں۔
’سانس لینا مشکل ہو رہا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ ہوا میں آکسیجن رہی ہی نہیں۔

غصہ و پریشانی 

ایک چیز جو صاف دکھائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ حکام سمیت زیادہ تر لوگ بے خبر تھے کہ اس سال گرمی کی لہر اس قدر جان لیوا ثابت ہو گی۔ اسی لیے محکمۂ موسمیات کو بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ اس آفت کی پیشن گوئی کیوں نہ کر سکے اور انھوں نے لوگوں کو بروقت خبردار کیوں نہیں کیا۔
جب لوگوں کی ایک بڑی تعداد گرمی سے نڈھال ہونا شروع ہو گئی تو سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کا تانتا بندھ گیا۔

کراچی کے ’جناح ہسپتال‘ میں گرمی کی آفت سے نمٹنے میں پیش پیش رہنے والی ڈاکٹر سیمی جمالی کہتی ہیں کہ ’ہم یہاں تھوڑی بہت افراتفری کے عادی ہیں لیکن یہ آفت ہمارے لیے بھی بہت بڑی تھی۔ ہزاروں لوگ شدید غصے اور پریشانی میں ہسپتال کے باہر جمع تھے اور صورتحال کسی بھی وقت پرتشدد شکل اختیار کر سکتی تھی۔

’امن بحال کرنے کے لیے اگر وقت پر یہاں فوج نہ آتی تو ہم گرمی سے متاثر ہونے والے ان ہزاروں مریضوں کو نہ دیکھ پاتے جو ہمارے ہاں لائے جا رہے تھے۔

غیر ذمہ دارانہ رویہ

ناقدین کا کہنا ہے کہ سندھ کی صوبائی حکومت نے لوگوں کی مصیبت سے نمٹنے میں شدید سست روی کا مظاہرہ کیا۔

جب کراچی میں سینکڑوں لوگ مر رہے تھے، اس وقت حکمران پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری اور ان کے گھرانے کے دیگر با اختیار افراد نے ملک سے چلے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی طرح صوبائی حکومت بھی اس آفت کا مقابلہ کرنے میں بے عملی کی شکار دکھائی دی۔
شہرمیں سینکڑوں افراد کی موت کے پُورے ایک ہفتے بعد بلال بھٹو واپس کراچی لوٹے اور ایک سرکاری ہپستال کا دورہ کیا جہاں انھوں نے گرمی سے متاثر مریضوں کی عیادت کی۔

اُس وقت تک پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں بارہ سو افراد مر چکے تھے۔
ہسپتال کے دورے کے بعد بھی بلاول زرداری بھٹو نے اس سانحے کے دوران صوبائی حکومت کی درد انگیز سست روی کی کوئی توجیح پیش نہیں کی۔ نہ صرف یہ بلکہ انھوں ان اموات کا الزام وفاقی حکومت اور ایک نجی کمپنی کی جانب سے بجلی کی بندش پر لگا دیا۔

اس موقعے پر پاکستانی سیاستدانوں کی جانب سے الزامات سے انکار اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا کسی کو بھی اچھا نہیں لگا۔ پاکستان کے سینیئر تجزیہ نگار زاہد حسین کے بقول ’کراچی میں اموات اور انسانی بے بسی کی ذمہ داری موسم کے ظلم سے زیادہ نا اہل صوبائی حکومت کے غیر ذمہ دارانہ رویے پر عائد ہوتی ہے۔

شاہ زیب جیلانی 
بی بی سی نیوز، کراچی

Post a Comment

0 Comments