Ticker

6/recent/ticker-posts

میرا کراچی کہاں ہے؟.......


گزشتہ روز اخبارات میں خبر پڑھی کہ حکومت کی جانب سے شہریوں کی سہولت کے لیے مسافر بسوں کی سروس شروع کردی گئی ہے جو ابتدا میں لانڈھی سے ٹاور تک سفر کی سہولت مہیا کریں گی۔ اس خبر سے ایک بار پھر احساس ہوا کہ نہ صرف حکومتی ذمے داریوں کا بلکہ اس شہر کا بھی وہ کلچر بدل چکا ہے جو ان کا خاصہ ہوا کرتا تھا یعنی اب ریاستی سطح پر حکومت اپنی فلاحی ذمے داریوں سے (جوکہ کسی بھی ریاست کی بنیادی ذمے داری میں شمار ہوتی ہیں) پہلو تہی برت چکی ہے مثلاً پینے کا پانی، ٹرانسپورٹ کی سہولیات، صحت اور تحفظ کی ذمے داریاں۔

اب شہری ’’کمیٹی کے نلکے‘‘ سے پانی کا حصول بھول چکے ہیں اور پیسہ خرچ کرکے منرل واٹر پیتے ہیں، سرکاری کی جگہ نجی اسپتالوں سے علاج کرانے اور نجی تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم دینے کو ترجیح دیتے ہیں، تحفظ کے لیے نجی کمپنیوں کے سیکیورٹی گارڈ رکھتے ہیں، سفر کے لیے تو کوئی ’’چوائس‘‘ ہی نہیں سوائے پرائیویٹ یا نجی سواری کے۔ یہ وہ ایشوز ہیں کہ جن پر ہمارے عوامی نمایندے خاموش ہوچکے ہیں کہ انھیں اتنا ’’کچھ‘‘ مل جاتا ہے کہ وہ اپنی ہر ضرورت نجی طور پر ’’شاندار‘‘ طریقے سے پوری کرلیتے ہیں۔
دوسری تبدیلی جو اس ملک میں تیزی سے آ رہی ہے وہ شہروں کا نئی شکل اختیار کرنا اور دیہی علاقوں میں بھی قدرے شہروں کی طرح تبدیلی واقع ہونا ہے اور ان تمام میں سرفہرست کراچی شہر ہے۔آج کراچی کے شہری اچھی تفریح کے لیے کراچی شہر سے باہر کا رخ کرتے ہیں۔

 مختلف قسم کے فارم ہاؤسز یا دیہی علاقوں کے قدرتی مناظر ان کے لیے پرکشش ہیں، کیونکہ اب اس شہر میں سوائے بلند عمارتوں کے جنگل اور گاڑیوں کے 
دھوئیں، گردوغبار کے کچھ نہیں۔

مجھے یاد ہے کہ اسی شہر میں ہم اسکول کے دوست کبھی کبھار بس میں سوار ہوکر ٹاور کے آخری اسٹاپ تک جاتے اور پھر اسی بس میں واپس آجاتے اور اس دوران بس میں چلنے والے پرانے انڈین نغموں کا مزہ بھی لیتے، اسکول کارڈ پر 25 پیسے کا ٹکٹ لے کر اس تفریح کا مزہ لیتے تھے کیونکہ اس وقت شہر کی آبادی نہایت کم تھی اور مسافر نشست بہ نشست سفر کرتے تھے، کھڑے ہوکر سفر کرنا تصور میں نہ تھا۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ میں اکثر دیسی مرغی کا انڈا لینے اپنے گھر کے قریبی گوٹھ پہنچ جاتا تھا جہاں انتہائی پرسکون اور قدرتی ماحول دیکھ کر خوش ہوتا تھا اور کسی بھی گھر کی بلوچ خاتون کو کہتا ’’آنٹی! دو عدد مرغی کے انڈے دے دیں۔ 

اس گوٹھ میں مرغی اور بطخیں بھی کھلی گھومتی رہتیں اور ان کے دروازے بھی ہمیشہ کھلے رہتے۔ کسی چوری چکاری کا ڈر نہ خوف، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اکثر میں اپنے ہم عمر محلے کے لڑکوں کے ساتھ ان گوٹھوں میں رات کو ٹی وی دیکھنے پہنچ جاتا تھا۔ ایک بڑے کچے مٹی کے صحن میں چٹائی پر بیٹھ کر ہم ٹی وی بھی دیکھتے اور رات کے اندھیرے میں کہ جہاں راستے میں اسٹریٹ لائٹ بھی نہیں تھیں واپس گھر لوٹتے۔

مجھے یہ بھی یاد ہے کہ حسن اسکوائر سے لے کر غریب آباد تک جہاں اب کباڑی فرنیچر بازار لگتا ہے، دیوہیکل پل اور آسمان سے باتیں کرتے فلیٹس قائم ہوچکے ہیں وہاں کبھی باغ ہوا کرتا تھا، ہر طرف کھٹارے، جنگل جلیبی، بیر اور نہ جانے کیسے کیسے درخت اور پھول پودے ہوتے تھے، دن کے سناٹے میں ’’کوکو‘‘ کی آوازیں آتی تھیں جو روایتی طریقے سے کھیتوں کو سراب کرنے کے لیے لگائی گئی ایک چرخی سے پیدا ہوتی تھی۔ اس کھیت اور باغ کے قریب ایک ندی بھی بہتی تھی جو اس قدر کم چوڑی اور صاف شفاف ہوتی تھی کہ اکثر ہم اس کو پیدل پار کرکے باغ میں داخل ہوجاتے تھے اور اس میں موجود چھوٹی چھوٹی رنگ برنگی مچھلیوں کو پکڑنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔

لیکن آج یہ ندی جو عرف عام میں لیاری ندی کے نام سے مشہور ہے، انتہائی بڑی اور گندی ہوچکی ہے جہاں صاف شفاف پانی اور خوبصورت مچھلیوں کے بجائے بدبودار گندا کالا سیاہ پانی بہتا ہے اور اس کی وجہ وہ فیکٹریاں اور قریبی آبادیاں ہیں کہ جن کے سیوریج کا پانی اور کیمیائی گندہ پانی فضلہ یہاں سے بہتا ہوا گزرتا ہے۔ یوں آج آپ اس پل کے پاس بھی کھڑے ہوکر سانس نہیں لے سکتے(جو حسن اسکوائر اور غریب آباد کے درمیان واقع ہے) جہاں کبھی ندی میں بچے شفاف پانی سے لطف اندوز ہوتے تھے اور باغ میں گھومتے تھے اور باغ کے دوسری جانب آباد سندھی بلوچوں کے گوٹھ قدرت کا خوبصورت، رنگین دل نشیں، پرامن محبت بھری فضا کا نظارہ پیش کرتے تھے۔

مذکورہ بالا بیان کوئی ادبی یا افسانوی بات نہیں، راقم کی آنکھوں دیکھا حال ہے۔ آج دل میں اکثر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر کراچی شہر کے یہ خوبصورت مناظر کس نے تباہ کردیے؟ یہ شہر کے اندر ہی آباد ’’قدرتی فارم ہاؤسز‘‘ یعنی گوٹھ، باغ اور کھیت کس نے ختم کردیے، کسی نے ان گوٹھوں کو خرید کر اس شہر کی خوبصورت شکل کو بدصورتی میں بدل دیا یا کہ اس گوٹھ کے باسی خود ہی اپنے قیمتی و قدرتی اثاثے فروخت کرکے کہیں اور چلے گئے یا وہ بھی شہر کی مصنوعی اور غیر قدرتی جدت کے ہاتھوں یرغمال ہوگئے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں جب کبھی بھی بیمار پڑتے ڈاکٹر کے پاس جاتے تو ڈاکٹر اپنے پاس سے ہی دوا دیتا، بازار کے لیے نسخہ نہ لکھتا اور کبھی اتفاق سے لکھ دیتا تو ہمیں بہت دور دوسرے علاقے میں جاکر میڈیکل اسٹور ڈھونڈنا پڑتا تھا مگر آج ہر گلی کے کونے پر میڈیکل اسٹور دستیاب ہے، اگر دستیاب نہیں تو صاف ستھری فضا، ٹرانسپورٹ کا صاف ستھرا معقول نظام، نظم و ضبط والے سرکاری اسکول، صاف ستھری سڑکیں، صاف ستھری روشن ہوادار رہائشی یونٹس اور دستیاب نہیں تو قدرتی مناظر، اب ہم قدرتی مناظر دیکھنے کے لیے بھی اس شہر سے باہر جاتے ہیں، گاڑی کرائے پر لیتے ہیں، فارم ہاؤسز کے ٹکٹ خریدتے ہیں۔

آئیے! غور کریں، اس شہر کی نام نہاد جدت سے ہمارے مسائل بڑھے ہیں یا کہ ان میں اضافہ ہوا ہے۔ آئیے غور کریں کہ خوبصورت گوٹھوں، باغات، کھیتوں پر مشتمل کراچی ہمارے لیے جنت تھا یا موجودہ؟ آئیے تلاش کریں ’’میرا کراچی کہاں ہے؟ 

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری

Where is my Karachi?

Post a Comment

0 Comments