Ticker

6/recent/ticker-posts

چنگ چی رکشے پر پابندی

سندھ ہائی کورٹ نے چنگ چی رکشے پر پابندی کے خلاف حکم امتناعی واپس لے لیا، تو کراچی کے غریب شہریوں کو میسر سواری پر قدغن لگنے سے زندگی کے مصارف بڑھ گئے۔چین کی کمپنیوں نے مال برداری کے لیے ایک چھوٹی گاڑی تیار کی تھی جس کو موٹر سائیکل سے لگادیا جاتا ہے۔

دیہاتوں اور شہروں میں کم سامان کی نقل وعمل کے لیے یہ ایک ٹیکنالوجی کی سستی ایجاد ہے۔ یہ سواری پاکستان میں درآمد ہوئی اگر چہ اس سواری کو گدھا گاڑی اونٹ گاڑی اور بڑی سوزوکی ٹرک کے متبادل کے طور پر استعمال ہونا تھا مگر پاکستان میں آٹو موبائل کے انجینئروں نے اس مال بردار سواری کوپبلک ٹرانسپورٹ میں تبدیل کر دیا۔ کراچی میں ایک سیاسی لسانی جماعت نے چنگ چی رکشے کو بطور پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں پر لانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

جنوبی پنجاب سے آنے والے محنت کشوں کو چنگ چی رکشے چلانے کے لیے راغب کیا گیا۔ اندرون سندھ سے آنے والے نوجوان بھی چنگ چی چلاتے نظر آنے لگے۔ یوں چنگ چی رکشے کے روٹ بن گئے۔ پولیس اور کراچی پبلک ٹرانسپورٹ اتھارٹی والے خاموش رہے ۔ بڑی بسوں اور منی بسوں کی جگہ چنگ چی رکشوں کی بہار آگئی۔ شہر میں چوری ہونے والی موٹر سائیکلیں ان رکشوں میں استعمال ہونے لگیں۔
سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اورپولیس اہلکاروں کے بھتے میں اضافہ ہونے لگا۔ چنگ چی رکشے میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ زیادہ مسافروں کے بیٹھنے سے اس کا بیلنس برقرار نہیں رہتا اور یہ سڑک پر چلتی گاڑیوں کے درمیان الٹ جاتا ہے۔مسافروں کو بہت مختصر جگہ پر بیٹھنا پڑتاہے۔ یوں حادثات میں بھی اضافہ ہوا۔ چنگ چی رکشہ چلانے والے کم عمر لڑکے اور نوجوان ہیں جن کے پاس ٹریفک قوانین کی پابندی کا تصور نہیں ہے یوں سگنل توڑنے ،ون وے کی خلاف ورزیاں معمول بن گئیں ۔اس بناء پر سڑک پر ہونے والے حادثات میں اضافہ ہوا۔

کراچی میںبہت عرصے سے پبلک ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرنے والوں نے بڑی بسوں پر سرمایہ کاری بند کر دی تھی۔ یوںبسوں اور منی بسوں کی تعداد کم ہو گئی پھر ٹیکسیاں بھی تقریباً لاپتہ ہو گئیں۔ اس دوران بینکوں نے CNGرکشے کے لیے قرضے جاری کیے یوں بھاری تعداد میں یہ رکشے سڑکوں پر نظر آنے لگے۔
یہ رکشے کھلے اور زیادہ آرام دہ ہیں مگر چنگ چی رکشوں کی بناء پر ان کا کاروبار متاثر ہوا۔ CNGرکشے والوں نے اپنے رکشوں کو 6سیٹر کر لیا اور اپنے الگ روٹ بنا لیے۔ یہ صورتحال بینکوں سے ملنے والے قرضوں کی شرائط اور ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے قوانین کی واضح خلاف ورزی تھی مگرگزشتہ سال جب کراچی میں آپریشن شروع ہوا تو کراچی پولیس کے سر براہ نے اچانک انکشاف کیا کہ چنگ چی رکشہ مافیا مختلف جرائم کی ذمے دار ہے اور چوری کی موٹر سائیکلیں ان رکشوں میں استعمال ہوتی ہیں ۔

پولیس نے ان رکشوں کی پکڑ دھکڑ شروع کی ، معاملہ عدالت عالیہ تک پہنچا ۔معزز عدالت نے حکم امتناعی جاری کیا اور ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر گیا۔محکمہ ٹرانسپورٹ کے حکام نے اس دوران چنگ چی رکشوں کے لائنسس اور ان کے روٹ کے تعین کے بارے میں کچھ نہیں کیا۔

کراچی کا شمار دنیا کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے مگر کراچی پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کے حوالے سے دنیا کا بدترین شہربن گیا ہے۔ کراچی میں 40کی دہائی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی صورتحال بہت بہتر تھی بلکہ بین الاقوامی معیار کی تھی۔
آپ اندازہ لگائیں کہ کلکتہ اور کراچی میں ایک ساتھ ٹرام چلنے لگی۔ 1947میں جب ہندوستان سے آبادی کا ایک بڑا ریلہ کراچی میں آکر آباد ہوا اور کئی نئی بستیاں آباد ہو گئیں تو پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی محسوس ہوئی ، کراچی شہر میں بسوں کی تعدادبڑھ گئی۔ اسی عرصے میں کراچی میں ڈبل ٹریکر بسیں چلنے لگیں۔ایوب خان صدر بنے تو ان کے دور میں سرکلر ریلوے کا نظام قائم کیا گیا۔ سرکلر ریلوے پیپری سے شروع ہو کر کیماڑی وزیر مشن اور پھر سائٹ ناظم آباد لیاقت آباد کے قریب سے گزرتے ہوئے گلشن اقبال گلستان جوہر کے وسط سے ڈرگ روڈ اسٹیشن پر مرکزی ریلوے لائن سے منسلک ہو جاتی تھی۔

اس زمانے میں کراچی کے شہریوں کے لیے بڑی بسوں ٹرام اور ریل گاڑی کا نظام میسر تھا ۔ بھٹو دور میں ٹرانسپورٹ مافیا نے ٹرام سروس کو بند کرایا ، جنرل ضیاء الحق کے دور میں سرکلر ریلوے زوال پذیرہونا شروع ہوئی اس طرح کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن جو بڑی بسوں کے ذریعے یونی ورسٹیوں کے طلباء کے علاوہ مضافاتی علاقوں کو بڑی بسوں کے ذریعے اس سہولت فراہم کرتی تھی بد انتظامی کرپشن کی بناء پر بند ہو گئی۔ کراچی میں 1986سے ہونے والے ہنگاموں میں بسوں کو نذر آتش کرنے کی روایت نے صورتحال کو خاصا خراب کیا۔

برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے مسئلے کی گہرائی کو محسوس نہیںکیا اورکسی حکومت نے بنیادی نوعیت کی منصوبہ بندی پر توجہ نہیں دی ۔جب دوست محمد فیضی وزیر ٹرانسپورٹ بنے تو انھوں نے میٹروبسیں شروع کرائیں، یہ بسیں پہلے ائیرکنڈیشن تھیں۔ گلستان جوہرسے صدر ملیر سے صدرتک چلتی تھی۔ ان میں مسافروں کو کھڑے ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ متوسط طبقے کے لیے ایک اچھی سہولت تھی۔

منی بسوں کے علاوہ بڑی کوچز بھی چلائی گئیں جن کا کرایہ منی بس کے ٹکٹ سے زیادہ تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ ان کوچز میں مسافر کھڑے ہو کر اور لٹک کر سفر نہیں کر سکتے۔مگر اس شرط پر کبھی عمل نہیں ہوا۔جب نعمت اللہ ناظم اعلیٰ بنے تو اس وقت وزیر اعظم شوکت عزیز نے بینکوں کی لیز سے گاڑیوں کی اسکیم شروع کرائی ۔ اس اسکیم کے تحت بڑی بسیں سڑکون پر نظر آنے لگیں۔ ان میں بھی آٹو میٹک دروازے اور ائیرکنڈیشن بسیں بھی شامل تھیں مگر پھر یہ بسیں کچھ عرصے بعد سڑکوں سے غائب ہو گئیں ۔

اخبارات میں خبر بھی شایع ہوئی کہ ان بسوں کے مالکان نے بینکوں سے قرضے ادا نہیں کیے یوں کچھ ضبط ہو گئیں۔ کچھ کے بارے میں بتایا گیا کہ کراچی میں امن و امان کی صورتحال کی بناء پر مالکان ان بسوں کو پنجاب کے مختلف شہروں کے درمیان سکون سے چلانے کے لیے لے گئے ۔ مصطفی کمال ناظم اعلیٰ بنے تو ان کا سارا زور اوور ہیڈ برج اور انڈر پاس کی تعمیر پر تھا۔ انھوں نے اپنے آخری دور میں گرین بسیں چلائیں جو نارتھ کراچی سے صدر تک جاتی تھیں، یہ سروس زوال پذیر ہوئی ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے گرین بس دوبارہ چلائی مگر یہ محدود روٹ پر نظر آتی ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف نے دو سال قبل سہراب گوٹھ سے گرومندر تک جدید بسیں چلانے کا اعلان کیا تھا ۔ حکومت سندھ نے شاہراہ فیصل پر اسی طرح کی بسیں شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر دو سال بعد محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب میڈیا کی خبروں کے لیے تھا۔ ایوب خان کے دور میں ماس ٹرانزٹ کا منصوبہ فائلوں میں شروع ہوا ۔

بھٹو دور میں بھی ان فائلوں پر کچھ کام ہوا مگر عملی طور پر کچھ نہ ہو سکا۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں فہیم الزماں بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹربنے تو اس منصوبے پر کام شروع کیا۔ بے نظیر بھٹو نے اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا مگر فہیم الزماں کے رخصت ہوتے ہی معاملہ داخل دفتر ہوا۔ کراچی میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد چنگ چی رکشے جو سڑکوں سے غائب ہو رہے ہیں مگر عوام کی مشکلات بڑھ گئی ہیں ۔

بسیں اور منی بسیں دستیاب نہیں غریب لوگ رکشوں میں بیٹھ نہیں سکتے۔ کراچی کے مسئلے کا حل جدید ٹرانسپورٹ سسٹم ہے۔ ایسا سسٹم جو لاہور اور اسلام آباد میں کام کر رہاہے۔بعض ماہرین کہتے ہیں کہ اگرکرا چی کے پبلک ٹرانسپورٹ کے مسئلے پر فوری توجہ نہ دی گئی تو پھر 80کے عشرے کی طرح کراچی میں ایک دفعہ پھر اس مسئلے پر فسادات ہوں گے۔ سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے مگر کراچی کے شہریوں کا باعزت پبلک ٹرانسپورٹ کا خواب کب پورا ہو گا۔


ڈاکٹر توصیف احمد خان

Post a Comment

0 Comments