Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی، متحدہ اور امن

متحدہ کے استعفوں نے ایک دم سیاسی منظر میں تبدیلی برپا کردی ہے جس کی بازگشت کچھ اس طرح سے آئی کہ کسی بھی جمہوری و آئین کے خلاف سازش کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ اسپیکر صاحب نے اتنی تیزی کیوں دکھائی کہ پھر ایک دم سے مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت کو اسپیکر کے اس اقدام کو بریک لگانے پڑے۔ متحدہ کو بہرحال یہ موقع ملا کہ وہ اپنے حلیفوں میں یہ باور کراسکے کہ عمران خان کے استعفوں کے لیے ایک رویہ ہے تو متحدہ کے لیے دوسرا رویہ۔

کل ملا کے 83 نشستیں جو متحدہ کے پاس قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور سینیٹ میں ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنی بڑی استعفوں کی روایت اس سے پہلے کبھی نہیں ہے۔ میڈیا میں یہ خبر اس سال کی سب سے بڑی خبر بن گئی، جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ خیر خبر بنانا، میڈیا میں رہنا متحدہ کو آتا ہے۔ اور مسلم لیگ کو بحران پیدا کرنا اور بحران کو ہاتھ سے نکالنا آتا ہے۔ بھلا کیا ضرورت تھی اسپیکر کو اتنی تیزی دکھانے کی؟ متحدہ کی پالیسی بڑی واضح ہے، ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے؟ وہ چاہتے ہیں کہ بحران شدید ہو۔ ہر طرف ہو کا عالم ہو۔ عالم بدحواسی ہو، نہیں تو کراچی ان کے ہاتھ سے گیا، وہ جواری کی طرح تاش کے اہم پتے آخر میں استعمال کر بیٹھے۔ کیا یہ انھوں نے کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا ہے یا صرف یہ کہ ان کی پارٹی کا فیصلہ ہے؟

متحدہ پاکستان کی باقی ساری پارٹیوں میں نرالی پارٹی ہے۔ قیادت ہمیشہ کے لیے لندن منتقل ہوگئی، آنے کی نہ آرزو ہے نہ امید۔ ہمارے یہاں کی اکثریت میں یہ رائے ہے کہ پارٹی برطانیہ کے چہیتوں میں سے ہے اور برطانیہ کے ذریعے امریکا کے قریب ہے۔ کچھ برس قبل سب یہاں یہ فیشن میں تھی اور ایسی تصویر وکی لیکس بھی عکس کرتی ہے اور دوسرے نمبر پر یہاں یہ سعودی عرب کی رسم چلی ہوئی تھی۔ متحدہ مسلم لیگ (ق) کی طرح یہاں کے اسٹیبلشمنٹ کے بھی بہت قریب رہی ہے۔ اور جب بھی یار لوگوں کو شب خوں کے بعد اس شب خوں کو عوامی حمایت کی ضرورت پڑی تو اس مشکل میں پہلا کاندھا متحدہ نے دیا اور پھر خوب اقتدار کے مزے لوٹے۔ جنرل مشرف کا زمانہ تو ان کے لیے سنہری ترین رہا۔ مگر متحدہ کا طریقہ سیاست وہی رہا جس نے بالآخر سارے کراچی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، یہاں تک اس سے پاکستان پیپلز پارٹی بھی اپنے آپ کو نہ بچا سکی۔

اس گلشن کے کاروبار میں بھتہ خوری و قبضہ گیری جوش میں رہی۔ علاقے بانٹ دیے گئے کہ یہ تیرا علاقہ ہے اور یہ میرا علاقہ ہے۔ اور پاکستان پیپلز پارٹی سے بظاہر اختلاف تھے تو اندر میں اتحاد۔ متحدہ نے اپنے حلیفوں کو مضبوط رکھنے کے لیے سندھ توڑنے کی بات کی اور زرداری صاحب اس پر ردعمل نہ دے کر جیسے بے نظیر کی روایت کو الوداع کہا۔ بے نظیر سندھی Narrative کا دامن کبھی نہ چھوڑتی، وہ کالا باغ ڈیم کے حوالے سے ہو یا وہ سندھ کی تقسیم کے حوالے سے۔ اسے پتہ تھا کہ سندھی ووٹ اس کی بنیادی شناخت ہے، باقی سب اس بنیاد پر کھڑی عمارت ہے۔ مگر زرداری صاحب کے شوق کچھ اور تھے۔ کہتے ہیں کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ کراچی کی بدحالی، لاقانونیت ، بے لگام گھوڑے کی طرح بڑھتی گئی۔
پیپلز پارٹی کی جیالوں سے بھری بانہیں اب داستانیں ہوئیں، وڈیرے نہ اِس کے نہ اُس کے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی طرح وہ کل بھی اس اصول پر چلتے تھے اور آج بھی اس بات پر قائم ہیں، اگر زرداری نہ سہی اور سہی۔
لیکن متحدہ کے حلقے اس طرح نہ تھے۔ وہ صرف متحدہ کے تھے۔ اگر متحدہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تو وہ بھی اور اگر متحدہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تو وہ بھی۔ 

اس کے درمیان اگر کچھ پذیرائی ان حلقوں میں ملی بھی تو وہ عمران خان کو ملی۔ مگر خان صاحب کی پارٹی کبھی بھی متحد و آرگنائز جماعت نہیں بن سکتی، وہ تو تماشا ہے۔ کرکٹ کے میدان پر ہو یا کنٹینر پر۔ بہرحال نشستوں سے استعفی سے خلا پیدا تو ہوا ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ کراچی کے حلقوں میں احساس محرومی بھی پیدا کرے گا۔ اور مجبور کرے گا مہاجروں کو کہ وہ اور مہاجر ہو کر اپنے آپ کو دیکھیں، اور اس عمل سے متحدہ اپنے آپ کو اس بحران سے نکالنا چاہتی ہے۔
متحدہ چاہتی ہے کہ سیاسی بحران شدید ہو اور جاکے شب خون تک بات پہنچے اور اسی طرح وہ شب خون کو سیاسی حمایت کے وقت کام لائیں اور اس احسان کے بدلے کچھ لو اور کچھ دو پر سمجھوتہ کریں۔

خود پیپلز پارٹی ایسے شب خون آنے کے لیے منتظر ہے تاکہ اس ذلت سے نکلے اور شہید ہوکر واپس لوگوں کے پاس جائے۔
عین ممکن ہے کہ خود بلاول بھٹو اسٹیبلشمنٹ کے قریب آجائے۔ جس کی پیش گوئی سابق پیر پگارا نے کی تھی کہ بلاول ان کی مسلم لیگ میں آجائے گا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ زرداری کی بصیرت ایک دن اس کو عوام سے کاٹ کر وڈیروں کی پارٹی بنا دے گی اور پھر یہ وڈیرے تب ہی زرداری کے ساتھ رہیں گے جب تک وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رہیں گے۔

ایک زاویہ  تحریک کا یہ بھی ہے کہ یہ پہلی جدوجہد تھی جس کی قیادت وڈیروں نے کی تھی۔ کیونکہ جتوئی صاحب نے وڈیروں کو کہا کہ دو ہفتے تحریک چلاؤ اقتدار ہمیں مل جائے گا اور اس طرح وڈیروں نے جیل بھرے تھے۔ دو ہفتے پورے ہوئے وڈیروں نے معافی نامہ لکھ کر جیل سے نکلنا بہتر سمجھا اور پھر تحریک سرخوں کے ہتھے چڑھ گئی تھی یا ضیا الحق نے اسے ایسا رنگ دے کر امریکا کو اس سے بدظن کیا۔

آج کے پاکستان میں امریکا و مغرب کا اثر و رسوخ بڑے زمانے کے بعد کمزور ہوا ہے، خود سعودی عرب کا بھی۔ چائنا کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے اور روس کا بھی۔ کل عبدالغنی صدر افغانستان بھی ابل پڑے اس کے باوجود بھی کہ پاکستان نے طالبان کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

ہوسکتا ہے کہ متحدہ کے پیدا کردہ بحران کا کوئی ایسا انٹرنیشنل کنکشن بھی ہو اور قوی امکان یہ بھی ہے کہ نہیں ہو مگر وہ شاید ایسا چاہتے ہوں۔ اب تو مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، متحدہ وغیرہ تنگ آگئے ہیں کہ اس سسک سسک کے مرنے سے بہتر ہے ایک بار مر ہی جاؤ یا دوسرے الفاظ میں نرم شب خون سے بہتر ہے کہ سخت شب خون آئے اور پھر نئے سرے سے باب رقم ہو۔

متحدہ کے پیدا کیے بحران سے کوئی بحران گہرا نہیں ہوگا۔ یہ تھم جائے گا۔ اور اگر ہوا بھی تو سخت شب خون کی شکل پیدا نہیں کرے گا، ہوسکتا ہے دوبارہ انتخابات ہوں اور بلدیاتی انتخابات ملتوی ہوجائیں۔ کراچی مجموعی طور پر اس بحران سے لاتعلق ہے کیونکہ بڑے عرصے بعد اس شہر میں امن آیا ہے ان کے لیے ایسے بحران فیض کی ان سطروں کی طرح ہیں:

آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

امن ہو تو بڑے سے بڑے سیاسی بحران کوئی معنی نہیں رکھتے۔ ہڑتال ہو تو بات بنے

جاوید قاضی

Post a Comment

0 Comments