پاکستان کے صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ نے کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کی نگرانی کے لیے کمیٹی کے قیام کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیٹی کی صرف تجویز تھی، اس کے قیام کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔
متحدہ قومی موومنٹ آپریشن کی نگرانی کے مطالبہ کرتی رہی ہے اور اس نے پچھلے دنوں اسی بنیاد پر استعفے بھی دیے تھے۔ انسانی حقوق کمیشن بھی آپریشن کی نگرانی کی حمایت کرتا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ مانیٹرنگ کمیٹی کی صرف تجویز تھی لیکن اس کے قیام کا فیصلہ نہیں ہوا تھا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں اس سے ان پر اعتماد کم ہو جاتا۔
’میں نے کہا تھا کہ مجھے کپتانی دے رہے ہیں، میں لوگوں کا منتخب نمائندہ ہوں، اگر مانیٹرنگ کمیٹی بنائی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس کمیٹی کا سربراہ میں ہوں اس پر اعتماد کم ہو گیا۔ اب ہمارے اوپر کوئی اور مانیٹرنگ کرے تو یہ مناسب نہیں ہے۔‘
وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کا کہنا تھا کہ آپریشن کے فیصلے کے وقت کسی جماعت نے مانٹیرنگ کمیٹی کے قیام پر اصرار نہیں کیا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ سب مطمئن تھے۔
وزیر اعلیٰ کے موقف کے برعکس 14 نومبر 2014 کو کراچی آپریشن کے ساتھ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے مانیٹرنگ کمیٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا تھا۔
’اس کمیٹی میں سول سوسائٹی کے لوگ اور معززین شامل ہوں گے جن کا کسی جماعت سے تعلق نہ ہو۔ یہ لوگ آپریشن کی نگرانی کریں گے، وفاقی، صوبائی حکومتوں، انٹیلیجنس اداروں اور میڈیا کو اپنی تجاویز پیش کیا کریں گے۔‘
چوہدری نثار نے اس مانیٹرنگ کمیٹی کا مینڈیٹ بھی واضح کیا تھا کہ کمیٹی اس بات کو یقینی بنائے گئی کہ کوئی بھی بے گناہ شخص نہ پکڑا جائے۔
’آپریشن کے دوران جو لوگ پکڑیں جائیں گے یہ کمیٹی اس بات کا تعین کرے گی کہ یہ شخص ذاتی جرائم کی وجہ سے پکڑا گیا یا کسی سیاسی مصلحت کی وجہ سے گرفتار ہوا ہے۔‘
متحدہ قومی موومنٹ گذشتہ دو سالوں سے مانیٹرنگ کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ کراچی میں کارکنوں کی مبینہ ماورائے عدالت ہلاکتوں اور گمشدگی پر بطور احتجاج تنظیم کے ارکان قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہو چکے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان انھیں اسمبلیوں میں واپس لانے کے لیے حکومت اور ایم کیو ایم میں ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں اور انھوں نے بھی مانیٹرنگ کمیٹی کے قیام کی حمایت کی تھی۔
ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے رکن امین الحق کا کہنا ہے کہ جب آپریشن کا آغاز ہوا تھا تو وزیراعظم میاں نواز شریف نے وزیراعلیٰ، گورنر اور وفاقی وزیر چوہدری نثار کی موجودگی میں اتفاق کیا تھا کہ مانیٹرنگ باڈی ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ جو اتفاق رائے پیدا ہوا تھا اس کو آگے بڑھایا جائے۔
’ہم نے اس بار استعفے احساس محرومی کی کیفیت تک پہنچے کے بعد دیے ہیں۔ مانیٹرنگ کمیٹی کے علاوہ ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے اور جو کارکن لاپتہ ہیں انھیں بازیاب کرایا جائے۔‘
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ کراچی میں پچھلے ڈھائی برس میں ماورائے عدالت ہلاکتوں میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کی چیئرپرسن زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ مانیٹرنگ کمیٹی کی اشد ضرورت ہے اور یہ حکومت کی اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔
رینجرز اور پولیس کے خلاف ماورائے عدالت قتل کے الزامات سامنے آ رہے ہیں۔سیاسی جماعتوں کی بھی یہ شکایات آ رہی ہیں کہ ان کے لوگوں کو اٹھایا جا رہا ہے اور ان کے اہل خانہ کو بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں۔ اس صورت حال میں آپریشن کی مانیٹرنگ کی ضرورت ہے تا کہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔
زہرہ یوسف
’رینجرز اور پولیس کے خلاف ماورائے عدالت قتل کے الزامات سامنے آ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی بھی یہ شکایات آ رہی ہیں کہ ان کے لوگوں کو اٹھایا جا رہا ہے اور ان کے اہل خانہ کو بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں۔ اس صورت حال میں آپریشن کی مانیٹرنگ کی ضرورت ہے تا کہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔‘
سینیئر تجزیہ نگار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ’مانیٹرنگ کمیٹی کو سمجھا ہی نہیں گیا۔ جب آپریشن شروع ہو رہا تھا تو اس وقت وزیراعظم کو پبلک سیفٹی بورڈ کے نام سے معلومات فراہم کی گئی تھیں اور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں سات رکنی بورڈ کی تجویز تھی۔
’اس بورڈ کا بنیادی کام یہ تھا کہ آپریشن کے حوالے سے اگر کوئی شکایت آئے تو اس کا جائزہ لے، لیکن تاثر یہ دیا جا رہا ہے جیسے مانیٹرنگ کمیٹی آپریشن کی نگرانی کرے گی۔ اس بورڈ کی تقریباً منظوری ہوگئی تھی لیکن کچھ صوبائی وزرا نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ کیا پولیس اور رینجرز ہر چھاپہ اجازت لے کر مارے گی؟‘
مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ’اگر کسی تنظیم یا افراد کو شکایت ہے تو کون سا فورم ہے جہاں وہ شکایت کر سکے، تو اس وقت اگر کسی کو اٹھاکر لے جایا گیا ہے تو وہ عدالت سے رجوع کرے، پھر تاریخیں پڑتی رہیں اس عرصے میں وکیل کو فیس بھی دینی ہے۔ کیا اس سے بہتر یہ نہیں ہے کہ سندھ حکومت یا ایپکس کمیٹی خود کوئی کمیٹی بنادے جہاں ان شکایات کا ازالہ ہو سکے؟
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے جمعرات کو صوبائی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی، جس میں بھی کیو ایم کے اس مطالبے پر غور نہیں کیا گیا۔ اجلاس میں شریک ایک اہلکار نے بتایا کہ نہ وزیر اعظم اور نہ ہی وزیر اعلیٰ نے اس بات کا تذکرہ کیا۔
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام
0 Comments