کراچی میں موجود بھینس کالونی رزاق آباد پولیس ٹریننگ سینٹر کے عقب
میں ایک شہر خموشاں آباد ہے، جسے ’’چوکنڈی قبرستان‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ چوکنڈی قبرستان کی قبریں جوکھیو قبائل سے منسوب کی جاتی ہیں، لیکن اس کے علاوہ دیگر بلوچ قبائل کی قبریں بھی ہیں۔ چوکنڈی قبرستان میں تاریخی قبروں کی تعمیر 15 ویں صدی عیسوی سے ہورہی ہیں۔
چوکنڈی کے معنی چار کونوں کے ہیں اور یہ نام بھی شاید اسی لئے استعمال کئے گئے ہیں، قبروں کی تعمیر میں پیلے رنگ کا پتھر استعمال کیا گیا ہے جو ٹھٹھہ کے قریب جنگ شاہی میں پایا جاتا ہے، زیادہ خوبصورت انداز میں تعمیر کردہ مقبرے کثیر منزلہ انداز میں تعمیر ہوئے ہیں، مستطیل نما قبریں تقریباً اڑھائی فٹ چوڑی، 5 فٹ تک لمبی اور 4 سے 14 فٹ تک اونچی ہیں، اس میں قبر کے چاروں طرف استعمال کئے گئے پتھر پر انتہائی خوبصورت نقش نگاری کی گئی ہے۔
اِس قبرستان کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں مَردوں اور خواتین کی قبروں کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔ مردوں کی قبروں پر خوبصورت کلاہ نما ڈیزائن بنائے گئے ہیں اور اس کے علاوہ تلوار بازی، گھڑسواری اور خنجر وغیرہ کے نقش بنائے گئے ہیں، جبکہ خواتین کی قبروں پر خوبصورت زیورات کنندہ کئے گئے ہیں۔ ان نقش سے مرد و زن کی قبروں کی باآسانی شناخت کی جاسکتی ہے۔ ان کو دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے کہ جب سائنسی آلات بھی موجود نہیں تھے، اس وقت میں کئی تہوں پر مشتمل یہ نقش کیسے بنائے گئے ہونگے، اور یہ ڈیزائن اس مہارت سے بنائے گئے ہیں کہ قبروں کے دیگر لیئرز کو کوئی بھی نقصان نہیں ہوا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق جس نفاست سے ان قبروں پر نوادرات کنندہ کئے گئے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک قبر پر کئی ماہر کاریگروں کے کئی دن صرف ہوئے ہوںگے۔
اس قسم کی قبریں چوکنڈی کے علاوہ ملیر، میرپور ساکرو، مکلی، ٹھٹہ، سیہون شریف وغیرہ میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اِن تمام تر حقائق کے برعکس انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومتِ وقت کی طرف سے اِس خوبصورت ورثے کی حفاظت کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا گیا ہے بلکہ، جو چیز مزید افسوس کا باعث بنی وہ یہ کہ پچھلی حکومتوں میں اس قبرستان کی اراضی اور اس سے ملحقہ اراضی کو کچھ لوگوں کو کارخانوں و دیگر مقاصد کے لئے دیا جاتا رہا ہے، جہاں کچھ کارخانوں کی تعمیرات بھی ہوچکی ہیں۔
قبرستان کی دیوار کے ساتھ ہی کارخانوں، گاڑیوں کے گیراج، مکینک کی دوکانوں کی ایک لمبی قطار نظر آتی ہے، اس کے علاوہ قبرستان سے متصل جگہ پر ٹینکر مافیا بھی جمع ہے۔ مین روڈ سے گذرتے ہوئے شاید ہی کسی فرد کو یہ احساس ہو کہ ایک قدیم اور نایاب ورثہ یہاں موجود ہے۔ مین روڈ پر ایک چھوٹی سی تختی اس قبرستان کی موجودگی کا احساس دلاتی ہے جبکہ اس چھوٹی سی تختی پر بھی تشہیری پوسٹر کی بہرمار سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تختی قبرستان کی نشاندہی کے بجائے جلسے جلوسوں اور کاروبار کی پبلسٹی کے لئے آویزں کیا گیا ہے۔
قبرستان میں ہماری ایک ضعیف العمر شخص سے ملاقات ہوئی، یہ بزرگ وہ واحد فرد ہیں جو حکومت کی طرف سے یہاں تعنیات ہیں۔ اب اتنے بڑے رقبہ پر محیط قدیم ورثہ کے لئے صرف ایک فرد کو معمور کرنا بڑایقینی طور پر کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اِس قدر اہم ورثے کی حفاظت کے لیے حکومت کس قدر سنجیدہ ہے۔ اِس اہم ورثے کی مسلسل خراب ہوتی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اعلیٰ حکام کو اس قدیم ورثے کو محفوظ رکھنے کے لئے فوری خاطر خواہ اقدام کرنے ہونگے، تاکہ اس نایاب جگہ سے ہماری آنے والی نسلیں بھی معلومات حاصل کرسکیں۔
نعمان لودھی
میں ایک شہر خموشاں آباد ہے، جسے ’’چوکنڈی قبرستان‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ چوکنڈی قبرستان کی قبریں جوکھیو قبائل سے منسوب کی جاتی ہیں، لیکن اس کے علاوہ دیگر بلوچ قبائل کی قبریں بھی ہیں۔ چوکنڈی قبرستان میں تاریخی قبروں کی تعمیر 15 ویں صدی عیسوی سے ہورہی ہیں۔
0 Comments