پانی زندگی ہے، پانی کے بنا زندگی نامکمل ہے، جس طرح ہم سانس لیتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں، بالکل اسی طرح صاف پانی بھی ہماری ضرورت ہے، لیکن اگر پانی دستیاب ہی نہ ہو تو کیا کیا جائے؟
کراچی کے بیشتر علاقوں میں سرکاری لائن سے پانی کی کمیابی کوئی انہونی یا نئی بات نہیں، جبکہ کراچی واٹر بورڈ کے مطابق شہر کے بہت کم علاقوں میں ہی پانی کی کمی یا پانی کی عدم فراہمی کا مسئلہ ہے۔ کچھ ہی ایسے علاقے ہیں جہاں بلوں کی عدم ادائیگی پر پانی کی لائن کاٹ دی جاتی ہے جبکہ لائن کاٹنے سے پہلے سال بھر میں کم سے کم 6 سے 7 بار نوٹس بھی بھیجا جاتا ہے۔
اب نہ جانے واٹر بورڈ کا ذریعہء معلومات کیا ہے، مگر کراچی میں رہنے والے تو کجا کراچی میں نہ رہنے والے بھی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کراچی کے زیادہ تر علاقوں میں عوام پانی کی بوند بوند کے لیے کس قدر ترستے ہیں۔
ادھر جن علاقوں میں پانی کی کمی یا عدم فراہمی کا مسئلہ ہوتا ہے وہاں لوگ پانی کے حصول کے لیے لوگ یا تو واٹر بورڈ کے قریبی دفاتر کے چکر لگاتے ہیں یا پھر ٹینکر کے حصول کے لیے دن بھر لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں اور مخصوص کردہ رقم سے بھی زیادہ رقم دے کر پانی حاصل کرتے ہیں۔ اور اگر ان سب ذرائع سے پانی نہیں حاصل ہو پائے تو پھر بورنگ کرواتے ہیں۔ فلیٹوں کے مکین مل کر بورنگ کرواتے ہیں اور کالونیوں میں رہنے والے اپنے اپنے بنگلوں کے لیے خود ہی بورنگ کروا کر ٹینکر کی مصیبت سے چھٹکارہ حاصل کر لیتے ہیں۔
کراچی میں جگہ جگہ مشین سے زمین کی کھدائی کا منظر نظر آتا ہے۔ کم سے کم تیس فٹ اور زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو فٹ زمین کی کھدائی کے بعد پانی دستیاب ہوتا ہے اور یہ پورا عمل تین سے چار دن میں مکمل ہو جاتا ہے۔ بورنگ کے ذریعے پانی فراہم کرنا بھی اب ایک کاروبار کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ کنویں کی کھدائی کے لیے بارہ سے پندرہ سو روپے فٹ یا اس سے بھی زیادہ کے ریٹ مقرر ہیں، اور یوں کنویں کی کم از کم 30 فٹ تک گہرائی کا خرچہ 36 ہزار سے 45 ہزار روپے آتا ہے۔ بورنگ کے لیے کنویں میں لگائے جانے والے پائپ اور دیگر سامان کی خریداری کا خرچ علیحدہ سے ہے جو کہ ہزاروں روپے بنتا ہے۔
بورنگ کے لیے کالونیوں اور فلیٹوں کے مکین گھروں اور پلازوں سے باہر زمین کی کھدائی کرواتے ہیں، کیا یہ کھدائی قانونی ہے؟ کیا کھدائی سے پہلے کے ایم سی سے اجازت لینا ضروری ہے؟ کے ایم سی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ فٹ پاتھ اور گھروں کے باہر کی سڑکیں عوام کے لیے ہیں جس پر کسی بھی قسم کی کھدائی یا کوئی بھی تعمیراتی کام غیر قانونی ہے۔ اگر کوئی بورنگ کرواتا بھی ہے تو وہ غیر قانونی ہے، اور اگر کے ایم سی کو اطلاع ملتی ہے تو وہ فوری کارروائی کرتے ہوئے کنویں کو مٹی سے بھر کر بند کر دیتے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو کراچی میں جہاں جہاں بھی بورنگ کی جا رہی ہے اور کی گئی ہے، سب ہی غیر قانونی ہیں، مگر کے ایم سی خاموش ہے۔
کیا یہ پانی صحت کے لیے بہتر ہے؟ اس پر کون غور کرے۔ ہزاروں روپے لگا کر پانی مل رہا ہے، اور واٹر بورڈ اور ٹینکروں کے جھنجھٹ سے آزادی مل رہی ہے تو پھر پانی کے صحت مند ہونے نہ ہونے پر غور و فکر کرنے کی کسی کو کیا ضرورت پڑی ہے۔ بورنگ کا پانی کہیں ہلکا اور کہیں زیادہ کھارا ہوتا ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق پانی کے بائیو کیمیکل ٹیسٹ سمیت کئی ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ اگر پانی کو بغیر ٹیسٹ کے استعمال کیا جائے تو ٹائفائیڈ، ہیپاٹائیٹس اے اور گیسٹرو جیسے خطر ناک امراض لاحق ہو سکتے ہیں، جبکہ جلد کے مرض میں بھی مبتلا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔
لیکن عوام آخر کیا کریں؟ جب سرکاری لائن سے پانی نہ ملے تو مضرِ صحت پانی سے ہی کام چلایا جائے گا نا۔ یہ تو عوام کے منتخب نمائندوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو صاف پانی مہیا کریں، ورنہ عوام غیر قانونی بورنگ اور ٹینکر وغیرہ سے حاصل ہونے والا آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
پانی ذخیرہ کرنے سے لے کر اس کی ٹریٹمنٹ اور فراہمی تک، بے پناہ مقامات ایسے ہیں جہاں وہی دہائیوں پرانا بوسیدہ نظام موجود ہے، جس کی وجہ سے پانی کا ضیاع ہوتا ہے۔ پانی کی بوسیدہ لائنز اکثر پھٹ جاتی ہیں جبکہ پانی کی چوری بہت ہی عام ہے جس میں صرف عام شہری نہیں بلکہ ٹینکر مافیا بھی شامل ہے۔ واٹر بورڈ اور کے ایم سی کو اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے کہ پانی صرف انہیں فراہم کیا جائے جو اس کی ادائیگی کرتے ہیں۔
حکومت کو اس سلسلے میں طویل مدتی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ کراچی شہر کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے اور یہ دنیا کے سب سے تیزی سے بڑھنے والے شہروں میں شامل ہے۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ پانی کی طلب میں اضافہ اور رسد میں کمی ہونا لازم ہے۔ دنیا کے دیگر بڑے شہر بھی تو آخر پانی کی کمی کے مسئلے سے دوچار ہوں گے۔ اور کئی ممالک میں تو پانچ دریا بہتے ہی نہیں، ہمارے پاس تو یہ ایک اضافی وسیلہ ہے۔ کیا ہم دنیا کے دیگر شہروں سے مثال نہیں لے سکتے؟ سیوریج کے پانی کو ٹریٹ کر کے دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کی ٹیکنالوجی اب آ کر پرانی بھی ہوگئی مگر ہم لوگوں کے پاس اب تک سیوریج کا پانی سیدھا دریاؤں اور سمندروں میں پھینک کر آبی حیات کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
صرف کام کرنے کی توفیق ہونی چاہیے جو کہ ہمارے حکام میں مفقود دکھائی دیتی ہے ورنہ اتنے وسائل موجود ہیں کہ دو کروڑ لوگوں کو پانی فراہم کرنا چنداں مشکل نہیں۔ مگر سوال پھر وہی ہے کہ بلی کو گھنٹی باندھے کون؟
رابعہ جمیل
0 Comments