مسحور کن ہواؤں کی آغوش میں گنگناتی حب ڈیم کی خوبصورت جھیل کراچی سے 42 کلو میٹر کی مسافت پر بلوچستان کا چھوٹا صنعتی شہر حب واقع ہے جس کے قریب لسبیلہ اور دوسرے گاؤں دیہات موجود ہیں۔ حب ڈیم کے قیام کا مقصد تو بنیادی طور پر قرب و جوار کی ہزاروں ایکڑ کی زمین کو سر سبز و شاداب اور کراچی شہر کی پانی کی ضرورت کو پورا کرنا تھا۔
حکومت نے واپڈا کو ڈیم کی منصوبہ بندی ترتیب کرنے کے احکامات جاری کئے اور 1963ء میں باقاعدہ طور پر حب ڈیم کی تعمیر کی منظوری دی گئی۔ اُس وقت حب ڈیم کی تعمیرات کے اخراجات کی لاگت کا جو اندازہ لگایا گیا تھا وہ 8 کروڑ 68 لاکھ بنتی تھی۔
حب ڈیم دریائے حب پر تعمیر کیا گیا جو کہ صنعتی شہر حب کے قریب ہونے کی وجہ سے حب ڈیم کہلایا۔ حب ڈیم کی تعمیر 1979ء میں مکمل کی گئی، جس کے ذریعے پہلی بار لسبیلہ کو 1991ء میں آبپاشی اور صنعتوں کو پینے کا پانی فراہم کیا گیا۔ حب ڈیم کی لمبائی 21360 فٹ اور مٹی کی بھرائی کی مقدار 34 کروڑ مکعب فٹ اور اس کی بلندی 151 فٹ ہے جبکہ اِس کا بند سطح زمین سے 352 فٹ کی بلندی پر ہے اور پانی کی سطح 339 فٹ مقرر ہے۔
1984 میں پہلی مرتبہ حب ڈیم جھیل اپنی پوری گنجائش کیساتھ بھرنے کے عمل سے گذر چکی ہے، جبکہ جھیل کا پانی ڈیم کی بلند ترین سطح سے صرف 9 فٹ نیچے رہ گیا تھا، ڈیم کی تکمیل کے وقت دریائے حب کے بہتے پانی کو روک کر بند بنائے گئے جس میں 4 کروڑ مکعب فٹ مٹی کی بھرائی کی گئی تھی۔
حب ڈیم کا کام دن رات کی انتھک محنت اور پاکستانی انجینئرز کی قابلیت سے تقریباً 7ماہ میں 29 مئی 1979ء میں مکمل کرلیا گیا تھا جو کہ قابلِ حیرت تھا۔ ڈیم کو مضبوط رکھنے کے لئے پتھروں کی موٹی دیوار اور دوسری جانب روڑی اور بجری کی حفاظتی تہہ چڑھائی گئی ہے، ڈیم کا کام اس وقت کے ادارے ایم پی او نے سر انجام دیا تھا۔ حب ڈیم میں مجموعی طور پر 897000 ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ رکھنے کی گنجائش ہے جس میں 96 ہزار ایکڑ فٹ کی گنجائش دریا کے پانی کے ساتھ آنے والی مٹی کیلئے ہے گویا 60 لاکھ ایکڑ فٹ آبی ذخیرہ ایسے پانی کے لئے ہے جو استعمال میں لیا جاسکتا ہے۔
حب ڈیم میں متواتر طور پر پانی آتا رہے تو ڈیم کی گنجائش کو مدنظر رکھتے ہوئے تقریباً 3 سال کا پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے، لیکن بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ڈیم خشک ہوتا جارہا ہے۔ حب ڈیم جھیل کی گہرائی 138 فٹ ہے، تربیلا اور منگلا ڈیم کے بعد گنجائش کے اعتبار سے حب ڈیم کو پاکستان کی تیسری بڑی مصنوعی جھیل کہناغلط نہیں ہوگا۔ حب ڈیم میں دیگر ڈیموں کی طرح ماہی پروری کی تمام خصوصیات موجود ہیں، یہ ڈیم صرف پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کارآمد نہیں بلکہ کراچی اور لسبیلہ کی ماہی گیری کے حوالے سے تمام ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس میں بڑی تعداد میں مختلف اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں، جن میں قابل ذکر مہا شیر، راو، سوول، دئیہ وغیرہ شامل ہیں۔
حب ڈیم سے تقریباً 14 میل کے فاصلے پر حب واٹر سپلائی کینال بھی موجود ہے، جس سے 1981ء میں پہلی بار جزوی طور پر سپلائی شروع کی گئی تھی اور ستمبر 1982ء باقاعدہ طور پر کراچی کو 89 ملین گیلن یومیہ پانی سپلائی جاری کردی گئی تھی۔ مین کینال سے نکلنے والی دوسری نہر لسبیلہ کینال کہلاتی ہے جس کی مجموعی لمبائی 16 میل ہے۔ اِن دو نہروں کے علاوہ ایک اور 8 میل لمبی چھوٹی نہر بند مراد مائینز کے نام سے جانی جاتی ہے، 1986ء کے بعد جھیل کا نظام حکومت بلوچستان کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
جولائی 2003ء میں حب ڈیم اپنی انتہائی سطح 339 فٹ سے بھی بلند ہوگیا تھا اور اس وقت پانی کی انتہائی سطح 342 سے بھی زائد پہنچ چکی تھی، لیکن اللہ کی شان اور پاکستان کے قابل انجینئرز کی وجہ سے ڈیم کے اسپل وے نے اس پانی کے بہاؤ کو روک کر رکھا، ڈیم کو بڑے سیلابی ریلوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ڈیم کی دوسری جانب ایک راستہ بنایا گیا ہے، جس سے ڈیم کو نقصان سے بچانے کے لئے پانی کو چھوٹے ندی نالوں میں چھوڑ دیا جائے، تاکہ ڈیم کو کسی طرح کا بھی خطرہ لاحق نہ ہوسکے۔
حب ڈیم کو دلکش اور بہترین تفریح گاہ کے طور پر بھی ایک مقام حاصل ہے، کراچی و دیگر شہروں سے لوگ فیملیز کے ساتھ یہاں وقت گذارنے آتے ہیں۔ مسحور کن ہواؤں کی آغوش میں گنگناتی حب ڈیم کی خوبصورت جھیل اور اس کی نیلگوں سطح آب پر اڑتے اور اٹھیکیاں کرتے حسین پرندے حب ڈیم کے مستقبل اور بارانِ رحمت سے مایوس لوگوں کے لئے زندگی کی نوید ہی نہیں بلکہ پروردگار کی عطا کردہ بیشمار نعمتوں کی جیتی جاگتی تصویر بھی ہے۔
نعمان لودھی
0 Comments