Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی میں مجوزہ بلدیاتی انتخابات

ملک بھر میں بلدیاتی نظام 2001 کے تحت عوام الناس کے عوامی مسائل ان کی دہلیز پر حل ہورہے تھے، پی پی پی حکومت نے آتے ہی مشرف حکومت کے بلدیاتی نظام کا خاتمہ کردیا اور بلدیاتی اداروں کو سرکاری افسران کے حوالے کردیا۔ جنھوں نے اپنا زیادہ وقت میٹنگ اور اجلاسوں میں گزارا اور گزار رہے ہیں۔
نتیجتاً ملک، شہر، ضلعے، قصبے، گاؤں، محلے اور گلیاں کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے، سیوریج اور پینے کے پانی کے مسائل اس قدر گمبھیر ہوگئے کہ لوگ احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے جس کے نتیجے میں انھیں لاٹھی چارج اور ہوائی فائرنگ کا سامنا رہا۔ اب بھی ایسا کوئی ادارہ نظر نہیں آتا جہاں عوامی مسائل خوش اسلوبی سے حل ہوسکیں۔

عوام تڑپتے رہے، سسکتے رہے اور مطالبات کرتے رہے، بالآخر عدالت عظمیٰ نے حکمرانوں اور اداروں کی سرزنش کی کہ آئین پاکستان کے تحت ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کرائے جائے، سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس حکم نامے پر صاف انکار تو نہیں کیا گیا البتہ راہ فرار اختیار کرتے ہوئے بہانے ضرورکیے گئے کبھی قانون سازی میں تاخیر کی گئی، کبھی بلدیاتی نظام بنائے اور ختم کیے گئے پھر نئے بنائے گئے، بلدیاتی حلقہ بندیاں اس طرح کی گئی جس پر اعتراض کیے گئے پھر انھیں درست کیا گیا پھر نئی مردم شماری کے بغیر، سیلاب کی صورتحال کی وجہ سے انتخابات کی تاریخیں آگے بڑھائی گئی۔

بالآخر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات خیر وعافیت سے ہوگئے، پنجاب و سندھ بہانہ بازی میں وقت ضایع کرتے رہے اور اکتوبر سے پہلے الیکشن کمیشن نے صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے سے معذرت کرلی کہ سیلاب کے باعث بلدیاتی انتخابات مرحلہ وار یا تاخیر سے کرانا مجبوری ہے۔
الیکشن کمیشن کو زمینی حقائق کے مطابق جواز مل گیا تھا کہ متعدد عمارتیں جہاں پولنگ اسٹیشن بنائے جانے ہیں، متاثرین سیلاب کو دی گئی ہیں جب کہ حلقہ بندیوں کے خلاف درخواستیں بھی عدالتوں میں زیر التوا ہیں، الیکشن کمیشن کے اجلاس میں چیف سیکریٹری پنجاب کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب میں سیلاب کے باعث انتخابی عملہ دستیاب نہیں جب کہ چیف سیکریٹری سندھ نے کہاکہ صوبے میں سیلابی صورتحال ہے اور بلدیاتی انتخابات کے لیے انتخابی عملہ انتظامیہ سے لیا گیا ہے ۔
جسے بروقت تربیت نہیں دی جاسکی اس کے علاوہ سندھ لوکل گورنمنٹ بل 2015 بھی آخری مراحل میں ہے جس کی منظوری کے بعد انتخابات کے لیے تیار ہوں گے۔ الیکشن کمیشن نے مجوزہ شیڈول سے اتفاق کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں اس کا دفاع کرنے کا فیصلہ کیا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی الیکشن کرانے کی آئینی ذمے داری نبھانے کی ہدایت کرتے ہوئے اس بارے میں دائر متفرق درخواستیں نمٹا دیں، الیکشن کمیشن نے اپنی درخواستوں میں دسمبر تک مرحلہ وار بلدیاتی الیکشن کرانے کی اجازت مانگی تھی۔

سابق چیف جسٹس جواد خواجہ کی سربراہی میں فل بنچ نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کی تاریخیں مانگنے کے بجائے صوبوں کو حکم دے، بلدیاتی الیکشن کا انعقاد آئین کی شق 140 اے کے تحت الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے،6 سال سے دونوں صوبوں میں بلدیاتی ادارے تحلیل ہوچکے ہیں، عدالت اعلان کردہ شیڈول میں توسیع کا حکم نہیں دے گی، الیکشن کمیشن نے اپنی ذمے داری کس طرح ادا کرنی ہے اس کا فیصلہ اس نے خود کرنا ہے۔

اگر وہ الیکشن کرانا نہیں چاہتا تو پھر بتادے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن اپنا کام نہیں کرسکتا تو استعفیٰ دے کر گھر چلا جائے، بلدیاتی الیکشن نہ کروا کر آئین اور حلف کی خلاف ورزی کی گئی، زیر غور درخواستوں میں الیکشن کمیشن نے آئین توڑنے کی اجازت مانگی ہے۔ بی بی سی کے مطابق فاضل جج نے کہاکہ حیرت ہے ایک آئینی ادارہ (الیکشن کمیشن) دوسرے آئینی ادارے (سپریم کورٹ) سے درخواست کررہاہے کہ اسے غیر آئینی کام کرنے کی اجازت دی جائے۔

عدالت عظمیٰ کی ہدایت کے بعد الیکشن کمیشن نے ایک مرتبہ پھر سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی نئی تاریخوں کا اعلان کردیا، دونوں صوبوں میں بلدیاتی الیکشن 14 نومبر کے بجائے 3 مرحلوں میں انتخابات منعقد کیے جانے کے شیڈول مرحلہ وار اعلان کیے گئے۔

پہلے مرحلے میں دونوں صوبوں کے 20 اضلاع میں پولنگ 31 اکتوبر 2015 کو دوسرے مرحلے میں دونوں صوبے کے 27 اضلاع میں پولنگ 19 نومبر جب کہ تیسرے مرحلے میں18 اضلاع میں3 دسمبر کو پولنگ ہونے تھے لیکن الیکشن کمیشن نے پنجاب اور سندھ میں تیسرے مرحلے کے شیڈول میں تبدیلی کردی ۔اب یہ بلدیاتی انتخابات 3 دسمبر کے بجائے5 دسمبر کو ہوںگے، واضح رہے کہ حضرت امام حسینؓ کے چہلم کے باعث تاریخ میں رد و بدل کیا گیا کاغذات نامزدگی جمع کرانے سمیت دیگر شیڈول میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ تیسرے مرحلے میں کراچی بھی شامل ہے۔ صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2015 کے تحت منعقد ہورہے ہیں۔

تیسرے مرحلے میں کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں بظاہر عروج پر ہیں۔ کراچی کے 6 اضلاع کے امیدواروں کی ابتدائی فہرست الیکشن کمیشن نے جاری کردی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق مجموعی طور پر 1439 نشستوں کے لیے 9888 امیدوار میدان میں آئے ہیں، ضلع غربی میں 318 نشستوں کے لیے 2457، ضلع جنوبی کی 186 نشستوں کے لیے 989، ضلع شرقی کی 186 نشستوں کے لیے 1570، ضلع کورنگی کی 222 نشستوں کے لیے 1500، ضلع وسطی کی 306 نشستوں کے لیے 1909 اور ضلع ملیر کی 221 نشستوں کے لیے 1463 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے، ان 10 ہزار 78 امیدواروں میں سے 9 ہزار 392 کاغذات نامزدگی منظور اور 686 مسترد ہوئے ہیں۔ کراچی ضلع جنوبی لیاری کی 14 یونین کمیٹیوں کے 12 کونسلرز بلا مقابلہ کامیاب جب کہ امیدوار نہ ہونے کی وجہ سے 4 کونسلرز کی نشستیں خالی رہ گئی ہیں۔ ایکسپریس کی حیران کن رپورٹ ہے کہ پیپلز پارٹی کا لیاری ، قریبی علاقوں میں کوئی امیدوار نہیں۔لیاری کی یو سی 3,4,5, ضلع جنوبی کی یو سی 20 اور 23 میں کوئی جیالا کھڑا نہیں ہوا۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں 74 لاکھ 68 ہزار 576 ووٹرز حق رائے دہی استعمال کریں گے۔

کراچی کے 6 اضلاع کے شہری علاقوں میں 213 یونین کمیٹیز میں کونسلرز اور چیئرمین و وائس چیئرمین کے انتخابات براہ راست ہوں گے، یونین کمیٹی کا چیئرمین بلدیہ عظمیٰ کراچی کی کونسل کارکن ہوگا جو میئر و ڈپٹی میئر کو منتخب کرے گا، یونین کونسل کا وائس چیئرمین ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کارکن ہوگا جو ڈی ایم سی کے چیئرمین و وائس چیئرمین کو منتخب کرے گا۔ کراچی شہر کے دیہی علاقوں میں 23 یونین کونسل کے براہ راست انتخابات میں چیئرمین و وائس چیئرمین، کونسلرز اور رکن ڈسٹرکٹ کونسل منتخب ہوں گے، اراکین ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین و وائس چیئرمین کا انتخاب کریں گے، بلدیہ عظمیٰ کراچی، ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز، یونین کمیٹیز، یونین کونسل اور ڈسٹرکٹ کونسل میں 33 فی صد خواتین، پانچ فیصد لیبر، پانچ فی صد یوتھ اور پانچ فی صد اقلیتی مخصوص نشستیں ہوں گی

اس طرح کراچی سطح تک انتخابات میں مجموعی طور پر 213 یونین کمیٹیز اور 23 یونین کونسلوں کی ایک ہزار 439 نشستوں پر عوامی ووٹوں کے ذریعے براہ راست انتخابات ہوں گے جن میں 236 چیئرمین، 236 وائس چیئرمین اور 944 کونسلرز منتخب ہوں گے، ہر یوسی میں چار وارڈ ہوں گے اور ہر وارڈ میں چار کونسلرزکی نشستیں ہوگی، ہر یوسی میں ایک چیئرمین، ایک وائس چیئرمین ہوگا۔ چیئرمین و وائس چیئرمین کے لیے مشترکہ بیلٹ پیپر جاری ہوگا جب کہ کونسلرز کے لیے علیحدہ بیلٹ پیپر ہوگا، ان سب کا انتخاب عوامی ووٹوں کے ذریعے ہوگا۔ بعد ازاں منتخب ہونے والے عوامی نمایندے مخصوص نشستوں پر خواتین لیبر، یوتھ اور اقلیتوں کا انتخاب کریں گے، یونین کمیٹیز و یونین کونسلوں کی خواتین کی مخصوص نشستوں کی مجموعی تعداد 472، لیبر 236، یوتھ 236 اور اقلیت 236 ہے۔ کراچی کی سطح پر بلدیاتی انتخابات کی نگرانی کے لیے 6 ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران، 60 ریٹرننگ افسران، 115 اسسٹنٹ ریٹرننگ افسران، 4 ہزار 505 پولنگ اسٹیشن قائم کیے جائیں گے جب کہ پولنگ بوتھ کی تعداد 17 ہزار 78 ہوگی، پریذائیڈنگ افسران 4 ہزار 505، اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسران 34 ہزار 156 اور پولنگ افسران 17 ہزار 78 تعینات کیے جائیں گے۔

بلدیہ عظمیٰ کی کونسل 308 اراکین پر مشتمل ہوگی جو کراچی کے میئر اور ڈپٹی میئر کا چناؤ کرے گی۔ بلدیہ عظمیٰ کے کونسل ہال کی عمارت میں بیٹھنے کی گنجائش صرف 255 اراکین کی ہے جس میں اضافے کرنے کا انتظام کیا جارہاہے۔ ضلع ملیر میں حلقہ بندی میں ہونے والی ترامیم کے بعد کراچی میں یونین کمیٹی کی تعداد 213 سے کم ہوکر 209 ہوگئی۔ یونین کونسل کی تعداد 23 سے بڑھ کر 38 ہوگئی، کراچی سطح پر بلدیاتی انتخابات میں براہ راست منتخب ہونے والے 209 چیئرمین بلدیہ عظمیٰ کی کونسل کی مخصوص نشستوں پر 33 فی صد خواتین، 5 فی صد نوجوان، محنت کش اور اقلیت کو منتخب کریں گے، اس بالواسطہ انتخابات کے بعد بلدیہ عظمیٰ کا ایوان 308 اراکین پر بنے گا جو خفیہ رائے شماری کے تحت میئر و ڈپٹی میئر کو منتخب کرے گا۔ اس طرح بلدیاتی سطح پر اہل کراچی کو وارث مل جائے گا۔ دیکھنا یہ ہوگا یہ نیا وارث (میئر کراچی) کس حد تک کراچی کی احساس محرومی کو ختم کرسکے گا۔؟

شبیر احمد ارمان

Post a Comment

0 Comments