Ticker

6/recent/ticker-posts

’اس میں تو لڑے گا ہی وہ جو کراچی والا ہے‘

کراچی میں عمران خان کی مقبولیت اور جماعت اسلامی کے نظم اور تجربے کو یکجا کرکے دونوں جماعتوں کا اتحاد ایم کیو ایم سے مقابلے میں اترا ہے۔
جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کو ماضی کے برعکس سازگار ماحول ملا ہے۔ گذشتہ عام انتخابات کا جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کردیا تھا جبکہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں شہر کے ہر علاقے میں مشترکہ یا آزاد حیثیت میں امیدوار کھڑے کیے گئے ہیں، جن کا ایک ہی نعرہ ہے کہ شہر میں امن قائم کیا جائے گا۔
انتخابات سے قبل عمران خان اور سراج الحق نے مشترکہ ریلیاں نکالیں۔

پاکستان تحریک انصاف

تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور یونین کمیٹی بہادر آباد سے امیدوار فردوس شمیم نقوی پرامید ہیں کہ اتحاد کارگر ثابت ہوگا۔
’ہم سمجھتے ہیں کہ مہاجروں کا استحصال ہوا اوران کے جائز مطالبات بھی مسترد ہوئے، جس کا ایک ردعمل سامنے آیا لیکن رد عمل ایک عرصے تک رہتا ہے۔ جو فاشزم ایم کیو ایم نے اختیار کیا اب اس کے خلاف ایک رد عمل آئے گا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ اتنی منظم قوت کو شکست دینے کے لیے جماعتیں متحد ہوکر آئیں ورنہ لوگوں کو یہ یقین ہی نہیں تھا کہ ایم کیو ایم کو کوئی پیچھے دہکیل سکتا ہے۔ 
فردوس شمیم نقوی کا کہنا ہے کہ وہ کراچی اور پاکستان کے حامی ہیں لیکن ایم کیو ایم کوئی نہ کوئی لسانی بات کرتی ہے اب وہ کہہ رہے ہیں کہ میئر تو اپنا ہونا چاہیے۔ یہ تو بلدیاتی انتخابات ہیں اس میں تو لڑے گا ہی وہ جو کراچی والا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ

متحدہ قومی موومنٹ گذشتہ تین دہایوں سے شہر کی سیاست پر چھائی ہوئی ہے۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں اس کو جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اتحاد کے علاوہ رینجرز کے آپریشن کا بھی سامنا رہا ہے لیکن وہ اس کو ہمدردیوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

ڈاکٹر فاروق ستار کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت آج بھی مقبول ہے۔ ’یہ ہمارے لیے بہت اچھا ہوا، یوں سمجھیے زحمت کی آڑ میں رحمت ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف اگر الگ الگ لڑکر ہارتیں تو ان کو یہ کسک رہ جاتی کہ کاش اتحاد کرکے لڑتے تو ایم کیو ایم کی لیڈ یا جیت کی شرح کم ہوجاتی اس بار یہ حجت بھی پوری ہوجائے گی۔ 
بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے ماضی کے برعکس اردو بولنے والوں کی اکثریتی آبادیوں تک محدود رکھا ہے۔

ڈاکٹر فاروق ستار کے مطابق مخالف اتحاد ایم کیو ایم کے بغض میں انتخابات لڑتے ہیں، کراچی کی حب میں نہیں لڑتے۔ آپس میں ساری جوڑ توڑ کرکے بھی انہیں پورے کراچی سے انتخابات میں امیدوار نہیں ملے۔ ’ہم نے تو پھر بھی زیادہ سے زیادہ امیدوار کھڑے کیے ہیں حالانکہ ہم اکیلے ہیں۔ 

ایم کیو ایم نے جمعیت علما اسلام ف کے ساتھ کچھ یونین کونسل پر اتحاد کیا ہے جبکہ بعض علاقوں میں آزاد امیدواروں کی حمایت کی ہے۔ کامیابی کی صورت میں ان کا رخ ایم کیو ایم کی طرف ہی ہوگا۔

مہاجر قومی موومنٹ حقیقی

مہاجر قومی موومنٹ حقیقی بھی بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ اس کا زیادہ تر زور لانڈھی، شاہ فیصل کالونی اور لائنز ایریا پر ہے۔ شاہ فیصل کالونی میں بدھ کے روز اپنے خطاب میں حقیقی کے رہنما آفاق احمد نے لوگوں کو اپیل کی کہ انتخابات میں ان کی جماعت کو ووٹ دیں اگر نہیں تو ایم کیو ایم کو دیں کسی غیر مہاجر کو ووٹ نہ دیا جائے۔

آفاق کا یہ رویہ کیا متحدہ قومی موومنٹ اور مہاجر قومی موومنٹ میں کسی مفاہمت کا نتیجہ ہے؟ لیکن ایم کیو ایم کے رہنما امین الحق اس کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کی کسی قسم کی مفاہمت نہیں ہے بلکہ متحدہ قومی مومنٹ تن تنہا انتخابات لڑ رہی ہے۔” متحدہ اور اس صوبے کی شہری عوام سمجھتے ہیں کہ مہاجر قومی مومنٹ نہیں بلکہ متحدہ قومی مومنٹ مہاجروں کی واحد نمائندہ جماعت ہے جو شہری علاقوں کے مفادات کا خیال رکہتی ہے۔
کراچی کے بعض علاقوں میں تو کئی ایسی امیدوار بھی میدان میں ہیں جنہیں کالعدم تنظیموں اور پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جمعیت علما اسلام ف کی حمایت حاصل ہے۔
  
دیگر جماعتیں 

تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علما اسلام نے بڑے سطح پر اتحاد کیا ہے۔ لیکن مقامی سطح پر جمعیت علما اسلام نے ایم کیو ایم اور جبکہ بعض یونین کاؤنسلوں میں پاکستان پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی سے سیٹ ایڈجسمنٹ کی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نجمی عالم نے تسلیم کہ ان کا جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد ہے بعد میں ایک اعلامیے میں ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے عوام نے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو مسترد کر دیا ہے دونوں کو چاہئے کہ وہ خیبرپختونخوا میں عوام کی خدمت کر کے وعدے پورے کریں۔

حالیہ بلدیاتی انتخابات میں حکمران پاکستان پیپلزپارٹی کو ماضی قریب کا سب سے بڑا سیاسی جھٹکا لگا ہے، لیاری میں چار سے زائد یونین کونسلز میں اس کو امیدوار نہیں ملے تاہم اس کی نظریں پھر بھی دیہی علاقوں پر مشتمل ضلعی کونسل پر ہیں جہاں اس کا مقابلہ مقامی برادری کے اتحاد سے ہے جس کو مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی حمایت حاصل ہے۔

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام 

Post a Comment

0 Comments