سپریم کورٹ نے چین کے تیار کردہ چنگ چی رکشہ پر عائد پابندی ختم کر دی، مگر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں چاروں صوبوں کو ہدایت کی کہ ان رکشاؤں کو سیفٹی قوانین کے مطابق سرٹیفکیٹ جاری کیے جائیں۔ جو رکشہ ان قوانین پر پورا نہ اترے اسے سڑکوں پر دوڑنے کی اجازت نہیں دی جائے۔
کراچی پولیس نے گزشتہ سال چنگ چی رکشہ میں مسافروں کو بٹھانے پر پابندی عائد کر دی تھی جس کی بنا پر 2 لاکھ کے قریب رکشے سڑکوں سے ہٹائے گئے تھے۔ سندھ ہائی کورٹ نے کراچی پولیس کی پابندی کے فیصلے کی توثیق کر دی تھی، اس طرح معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود چنگ چی رکشے سڑکوں پر نہیں آ سکے۔ کراچی پولیس حکام کہتے ہیں کہ ان رکشوں کی جانچ پڑتال کے بعد سرٹیفکیٹ جاری ہوں گے۔
کراچی جہاں بسیں سڑکوں پر موجود نہیں ہیں یہ رکشہ عام آدمی کے لیے ایک نعمت کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ چین نے چنگ چی رکشہ مال برداری کے لیے تیار کیے تھے، یہ رکشہ منی ٹرک کا کام دیتے ہیں۔ پاکستان میں جب یہ رکشہ درآمد ہوئے تو انھیں مال برداری کے کام کے لیے استعمال ہونا تھا مگر پھر ماہر کاریگروں نے ان رکشوں کو پبلک ٹرانسپورٹ میں تبدیل کر لیا۔
پاکستان میں گزشتہ عشروں کے دوران موٹر سائیکل کی صنعت نے خاطر خواہ ترقی کی ہے۔ چین اور جاپان کی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر اب موٹر سائیکلیں ملک میں تیار ہوتی ہیں اور ان کی قیمت بھی کم ہے۔ اسی بناء پر مقامی کاریگروں نے ان موٹر سائیکلوں کو چنگ چی رکشہ بنانے میں مہارت سے استعمال کیا۔ یہ رکشہ شہروں اور دیہاتوں میں سڑکوں پر دوڑنے لگے۔
کراچی میں اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی پبلک ٹرانسپورٹ سکڑنا شروع ہو گئی تھی۔ کراچی میں امن و امان کی صورتحال سے پبلک ٹرانسپورٹ کا شعبہ براہ راست متاثر ہوا تھا۔ شہر میں یہ روایت تھی کہ ہنگاموں اور حادثات کے دوران بسوں کو نذر آتش کیا جاتا تھا جس کی بناء پر پرانے ٹرانسپورٹر بسوں پر سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگے تھے، مگر اس صدی کے آغاز کے بعد بس مالکان سے بھتہ وصول کرنے، تاوان کے لیے اغوا کرنے اور مسافروں سے بھری بسوں کو یرغمال بنا کر مسافروں کو لوٹنے کی وارداتوں میں تشویش ناک اضافے کی بنا پر نئی بسوں پر سرمایہ کاری رک گئی تھی۔
بسوں میں لوٹ مار کے جدید طریقوں کے ذریعے مسافروں سے رقم اور موبائل فون چھیننے کی وارداتوں میں اضافے سے مسافروں کی تعداد کم ہو گئی تھی۔ ہزاروں نوجوان مسافروں نے نئی موٹر سائیکلوں کے ذریعے سفر کرنے کو ترجیح دینی شروع کر دی تھی۔ اس طرح سڑکوں سے بسیں غائب ہونے لگیں۔ بسوں کے کم ہونے کا حکام نے کوئی نوٹس نہیں لیا، بلکہ ان بسوں کی جگہ چنگ چی رکشے نظر آنے لگے۔
جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ناظم نعمت اﷲ خان نے اپنے دور میں بڑی بسوں کے چلانے کے معاملے پر توجہ دی۔ بینکوں کے قرضوں کے ذریعے رنگ برنگی بسیں سڑکوں پر نظر آئیں جن میں سے کچھ بسیں مکمل طور پر ایئر کنڈیشنڈ تھیں اور آٹومیٹک لاک والی بسیں بھی سڑکوں پر نظر آنے لگیں۔ سابق وزیر ٹرانسپورٹ دوست محمد فیضی نے میٹرو بسیں کراچی میں شروع کرائیں۔ یہ میٹرو بسیں مضافاتی علاقوں سے شہر کی طرف آتی تھیں۔
یہ بسیں متوسط طبقے کے لیے مناسب کرائے کے ساتھ نشست پر بیٹھ کر سفر کرنے کی مناسب سواری تھیں مگر بینکوں کی لیز سے حاصل کی جانے والی بسیں جلد سڑکوں سے غائب ہو گئیں۔ اسی دوران سرکلر ریلوے تقریباً ختم ہو گئی۔ کراچی کے شہریوں کا پبلک ٹرانسپورٹ کی جدید سہولتوں کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ پھر اگلے ناظم مصطفیٰ کمال نے اپنے آخری دور میں گرین بس سروس شروع کرائی۔ ان بسوں کی نشستیں آرام دہ تھیں مگر یہ شہر کے مختصر حصے میں چلائی گئیں۔
ان بسوں کا انتظام سٹی گورنمنٹ کے پاس تھا۔ مصطفیٰ کمال کے رخصت ہوتے ہی سٹی گورنمنٹ کے عملے کی اس میں دلچسپی کم ہو گئی اور گرین بسیں اپنے ڈپو تک ہی محدود ہو گئیں۔ لہٰذا کراچی کے شہریوں کا سارا دارومدار چنگ چی رکشوں تک محدود ہو گیا۔ یہ چنگ چی رکشہ بغیر کسی پرمٹ کے بڑی اور چھوٹی سڑکوں پر نظر آنے لگے۔ کراچی میں ان رکشوں کو سرائیکی بیلٹ سے آنے والے نوجوان چلاتے ہیں۔ ان نوجوانوں کی عمریں 20 سے 25 سال ہیں۔ ان کے پاس کسی قسم کے لائسنس موجود نہیں ہیں۔ پولیس افسران کہتے ہیں کہ چوری کی موٹر سائیکل ان رکشوں میں استعمال ہو رہی ہے۔
پھر مسافروں کی صحت کے اعتبار سے بھی یہ رکشہ مناسب نہیں۔ ان رکشوں کے الٹنے اور مسافروں کے زخمی ہونے کے معاملات میں تیزی سے عام آدمی کے لیے سفر مشکل میں پڑ گیا۔ پولیس نے ان رکشوں پر پابندی عائد کرنے کے لیے اقدامات کیے مگر شہر کے لیے ماس ٹرانزٹ منصوبوں پر عملدرآمد پر زور نہیں دیا۔
پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حکومتوں کی ترجیحات سے دور ہو گیا۔ اسی دوران لاہور میں میٹرو بس سروس چلنے لگی۔ پھر راولپنڈی اور اسلام آباد میں میٹرو بس کی سروس سے غریبوں اور افسروں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اس کے ساتھ ہی لاہور میں اورنج ٹرین کا منصوبہ شروع ہو گیا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاک چائنا اقتصادی راہداری کا توسیعی حصہ لاہور میں اورنج ٹرین کی صورت میں ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی میں سہراب گوٹھ سے ٹاور تک میٹرو طرز کی بسیں چلانے کا اعلان کیا تھا۔ سابق صدر آصف زرداری کی ہدایت پر سندھ گورنمنٹ نے شاہراہ فیصل پر بھی اسی طرح کی بسیں چلانے کا عزم کیا تھا اور اخبارات میں ان دونوں منصوبوں کے لیے خطیر رقم مختص کرنے کی خبریں بھی شایع ہوئی تھیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پروجیکٹ صرف فائلوں تک محدود ہو گئے۔ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نہ ہونے کے بے تحاشا نقصانات ہیں۔
موٹر سائیکل سواروں کی حادثات میں ہلاکت کی شرح بہت زیادہ ہے۔ غریب طبقے کے لیے سی این جی بند ہونے کی صورت میں کوئی متبادل ذریعہ موجود نہیں ہوتا۔ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی بنا پر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد حیرت انگیز طور پر بڑھنے کی وجہ سے آئے دن ٹریفک جام ہونا معمول بن گیا ہے، جس کے نتیجے میں تیل کا ضیاع، فضائی آلودگی میں اضافہ اور اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد بڑھنے کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔
جب پولیس امن و امان کی وجہ سے موٹر سائیکلوں پر ڈبل سواری پر پابندی لگا دیتی ہے تو پھر شہریوں کے لیے اپنے روزگار پر پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کراچی کے شہری یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ انھیں پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ چنگ چی رکشہ کسی صورت بھی پبلک ٹرانسپورٹ کی تعریف میں نہیں آتے لیکن کراچی کو زیر زمین ٹرین، جدید ٹرام اور بڑی بسوں کی اشد ضرورت ہے۔ کیا چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کراچی کے عوام کی داد رسی کر سکے گا؟ یہ سوال چنگ چی رکشہ میں بیٹھنے والے ہر شخص کے ذہن میں موجود ہے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان
0 Comments