Ticker

6/recent/ticker-posts

کراچی اب بے خوف ہے

کتابوں میں پڑھا ہے اور فلموں میں اس وقت کو دیکھا ہے جب انسان اپنی طاقت کی ’طاقت‘ سے زندہ رہتے تھے اور کمزور ان طاقت وروں کی نوکری بلکہ غلامی کیا کرتے تھے۔ کوئی قانون قاعدہ نہیں تھا ‘کوئی عدالت نہیں تھی اور مجرم کو پکڑنے والی پولیس نہیں تھی اور انسان صرف اپنی طاقت کی طاقت سے ہی زندہ اور باقی رہتا تھا ورنہ وہ مرتا رہتا تھا یعنی مر مر کے جیا کرتا تھا۔

یہ ایک طویل داستان ہے کہ حالات کے مارے ہوئے انسان کی قسمت بھی جاگ اٹھی اور کچھ انسان ایسے پیدا ہو گئے جنہوں نے اپنی جنس کی یہ حالت دیکھ کر اسے بدلنے کی کوشش کی اور پھر رفتہ رفتہ انسانی زندگی نے یہ چلن اختیار کیا جو اب ہے یعنی پولیس سے لے کر عدالتوں تک اور زندگی کے ایک قانون تک جس کے مطابق انسانوں نے زندہ رہنا سیکھا۔ خود بھی زندہ رہنا اور دوسروں کو بھی زندہ رہنے کا موقع دینا۔

انسان نے بے شمار دکھ سہنے کے بعد یہ منظم زندگی اختیار کی لیکن تعجب ہے کہ انسان کبھی کبھار کسی معاشرتی ضرورت یا اندر کی وحشت سے مغلوب ہو کر کسی حد تک اسی پرانی زندگی کی عادات کی طرف لوٹ جاتا ہے جن سے نجات پانے کی اس نے شعوری کوشش کی تھی اور کامیاب بھی رہا تھا آج ہم یہی پرامن اور ایک باقاعدہ زندگی گزار رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم معاشرتی نظم و ضبط کے لیے کوئی مشکل کھڑی کر دیتے ہیں۔

یہ باتیں مجھے کراچی کے بارے میں ہمارے سب سے طاقت ور شخص جنرل راحیل شریف کے ایک بیان سے یاد آئی ہیں جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ہم کراچی کو محفوظ بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے اور کراچی کے شہریوں کو بے خوف کر دیں گے۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے بلکہ ایک چھوٹا پاکستان ہے جس میں ملک کے ہر حصے کے شہری آباد ہیں‘ ہر برادری اور ہر شعبے کے پاکستانی یہاں زندگی کر رہے ہیں۔ کوئی ملازمت کرتا ہے تو کوئی کسی کاروبار میں مصروف ہے۔ اسلام آباد بن جانے کے بعد اس شہر کے کچھ امتیازی ادارے یہاں سے اسلام آباد منتقل ہو گئے ہیں مثلاً سفارت خانے اور سفارتی دفاتر جو کراچی میں تھے اسلام آباد چلے گئے کہ ملک کا مرکزی شہر اور دارالحکومت اسلام آباد بنا دیا گیا‘ اس طرح کراچی کی سیاسی حیثیت میں کمی آ گئی مگر اس کی دوسری کئی حیثیتیں برقرار رہیں۔
ملک کی بندرگاہ اسی شہر میں ہے اور کاروباری مرکز ہے۔ صنعتیں بھی زیادہ تر یہیں ہیں غرض ملک کے باقی حصوں میں کراچی سے مانگے تانگے کے کچھ ادارے اور مراکز موجود ہیں مثلاً فیصل آباد میں کپڑے کا کام سب سے زیادہ ہوتا ہے اسی طرح کسی دوسرے شہر میں زندگی کے کسی شعبے کی مرکزیت زیادہ ہو گی لیکن کچھ بھی ہو کراچی ہی سب سے اہم شہر ہے اور پورے ملک کا کاروبار کراچی کے راستے سے چلتا ہے۔

آزادی کے بعد جب آبادی کی نقل و حرکت شروع ہوئی تو بھارت سے ایک بڑی تعداد کراچی منتقل ہو گئی خصوصاً یوپی وغیرہ جن کی زبان بولنے والے کراچی میں بہت تھے یا ان کی مسلسل آمد کی وجہ سے بہت ہو گئے تھے۔ کراچی صوبہ سندھ کا شہر اور صوبائی مرکز تھا لیکن اس نقل مکانی کی وجہ سے اس کی زبان بھی اردو ہی ہو گئی اور ظاہر ہے کہ اردو بولنے والے بھی زیادہ ہو گئے۔ کراچی سندھ کا بڑا شہر بن گیا لیکن بدامنی کراچی میں بہت کم رہی۔ کاروبار کی وجہ سے یہاں جب سرمایہ بڑھ گیا تو اس کی وجہ سے تاجروں اور کاروباری لوگوں کو لوٹنے والے بھی پیدا ہو گئے پھر بات بڑھتی گئی اور اتنی زیادہ کہ قتل و خونریزی میں بھی یہ شہر بڑھتا گیا اور بوری بند لاشیں ملنی شروع ہو گئیں۔

کراچی کی بدامنی اتنی بڑھ گئی کہ فوج کو اپنے امن کے دستوں کی مدد سے کام لینا پڑا اور اس شہر میں امن قائم کرنے کے لیے رینجرز کو اپنے معمول سے ہٹ کر کام کرنا پڑا۔ اس کے اندازے کے لیے کراچی کے مسائل پر ایک اجلاس کے بارے میں جنرل راحیل کا بیان کافی ہے وہ بتاتے ہیں کہ انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا ہے اور ان کا انفراسٹرکچر ختم کر دیا ہے۔ کراچی سے باہر بھی ان کے ٹھکانوں اور رابطوں کو توڑا گیا ہے۔ خفیہ آپریشن کے دوران بڑی بڑی کامیابیاں ہوئیں۔ جنرل نے اعلان کیا کہ وہ کراچی والوں کو بے خوف بنائیں گے اور اس ضمن میں امن و امان قائم کرنے والے تمام اداروں سے کام لیں گے۔

کراچی سے جو غیر سرکاری اطلاعات موصول ہو رہی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شہر پھر سے انسانوں کی رہائش کے قابل ہو گیا ہے اور بدامنی کی زبردست لہر اب ٹوٹ چکی ہے اور دہشت گردی اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ کراچی کے شہری اپنی روز مرہ کی مصروفیات میں لگے ہوتے ہیں اور شہریوں کے دلوں سے خوف ختم ہو رہا ہے بلکہ ہو چکا ہے۔ یہی وہ خوف و ہراس تھا جس نے اس شہر کی روایتی زندگی اس سے چھین لی تھی اور فوج کا یہی ایک بڑا کارنامہ ہے کہ خوف کی فضا ختم کی گئی ہے۔ اب کراچی بدل چکا ہے اور بے خوف ہے۔

عبدالقادر حسن


Post a Comment

0 Comments