Ticker

6/recent/ticker-posts

اسٹیل مل کی نجکاری کیوں؟

پاکستان اسٹیل کو تباہی کے آخری دہانے پر پہنچانے میں کئی سال کا عرصہ لگا، اگر اس موضوع کا تجزیہ کیا جائے تو اس کا باضابطہ آغاز جنرل مشرف کے دور سے ہوا۔ جب سن دوہزار  کو پاکستان اسٹیل کوکمرشل بنیادوں پر چلانے کی پالیسی کا اجراء کیا گیا جب کہ اس حقیقت سے ہر باشعور شخص واقف ہے کہ اسٹیل انڈسٹری دراصل صنعتی انقلاب کا بنیادی جُزہوتی ہے،  پاکستان اسٹیل کو کمرشل بنیادوں پر چلانے کا حتمی مقصد اس کی پرائیوٹایزیشن کرنا تھا۔

2006 میں مشرف کے دور میں اس کی نجکاری کرنے کی کوشش بھی کی گئی جس کو اس وقت کی سپریم کورٹ نے غیر شفاف قرار دے کر رد کر دیا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بڑ ے پیمانے پر ایسے اقدامات اُٹھائے گئے جن کی وجہ سے اسٹیل مل کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔ان میں ایک اقدام سن 2001  میں ایس آر اوایس کا اجراء تھا، جسے ڈی ٹی آر ٹی بھی کہا جاتا ہے یعنی Taxes Remission For Export ۔ اس اسکیم کے تحت اپنے من پسند افراد کو بڑے پیمانے پر فائدہ پہنچانے کے لیے ایس آر او ایس کا اجراء کیا گیا ۔

ان ایس آر او ایس کی آڑ میں ہر قسم کا مال منگوایا گیا جس کو پاکستان اسٹیل ہی بناتا تھا۔اس مال پرکوئی ٹیکس عائد نہیں تھا۔ مشرف دور میں شروع ہونے والے ان ایس آر او ایس کا سلسلہ 2008-9 تک جاری رہا۔ جس کی وجہ سے پاکستان اسٹیل کو اربوں روپوں کا نقصان ہوا۔
مشرف دور میں درآمد شدہ وزیراعظم شوکت عزیز جو سامراجی قوتوں کے اعلیٰ کار تھے، انھوں نے پاکستان  جیسے نیم زرعی اورنیم صنعتی ملک کو ڈبلیو ٹی اوکی طرف دھکیل دیا۔ ڈبلیو ٹی او میں جانے سے پاکستان کی رہی صحیح صنعتی ترقی کا پیہہ بھی جام ہوگیا۔ اس کے علاوہ 2008-2009  میں بڑے پیمانے پرگڈانی کراچی میں شپ بریکنگ کی گئی۔ جوجہاز توڑنے کے لیے امپورٹ کیے گئے اُن پر نا امپورٹ ڈیوٹی اور Sales Tax بھی 0% تھا ۔ ان Ships کو توڑنے سے حاصل ہونے والی پلیٹس کو سریا بنانے کے لیے استعمال میں لایا گیا۔

یہ پلیٹ مارکیٹ میں 31000 روپے ٹن میں فروخت ہورہی تھیں جب کہ اسٹیل ملز کے بلٹس کی قیمت جوکہ سریا بنانے کے لیے کام آتا ہے 51000 روپے تھی۔ اسٹیل ملزکو مجبوراً اپنی بلٹس کا کارخانہ بند کرنا پڑا ۔ جو آج تک بند ہے۔ 2008 میں پوری دنیا میں اسٹیل انڈسٹریزکو بحران کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ چائنا کا انٹرنیشنل مارکیٹ سے لوہے اور خام مال کی خریداری کا عمل بند کرنا تھا۔ دنیا کے اکثر ممالک میں اپنی اسٹیل انڈسٹریزکو بچانے کے لیے Regularity Duty سمیت کئی اقدامات کیے گئے مگر پاکستان میں ایسا کوئی عمل نہیں کیا گیا۔

جس کی وجہ سے پاکستان اسٹیل مزید تباہی کے دہانے پر پہنچ  گئی ۔ ہاٹ رول کوائلز جن کی مارکیٹ میں سب سے زیادہ ڈیمانڈ ہے، اسٹیل ڈیلرز یہ کوائل چین ، یوکرین، روس، جاپان، امریکا وغیرہ سے سستے داموں پر برآمد کرتے ہیں۔ پاکستان اسٹیل نے اس حوالے سے نیشنل ٹیرف کمیشن میں مقدمہ بھی قائم کیا کہ ان کوائل کی امپورٹ پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی عائد کی جائے تاکہ اسٹیل مل مارکیٹ کا مقابلہ کر سکے۔ باوجود اس کے NTC نے پاکستان اسٹیل کا موقف تسلیم کرلیا لیکن کئی سال سے یہ مقدمہ زیر التواء رکھنے کے بعد WTO کے معاہدے کا سہارا لے کر خارج کردیا۔
پاکستان اسٹیل جس نے دوبارہ اپنی مقررہ پیداواری صلاحیت کی طرف بڑھنا شروع کردیا تھا اور 60% پیداواردینا شروع کر دی تھی، لیکن حکومت کی طرف سے سیلز پالیسی مقرر نہ کرنے کی وجہ سے اسٹیل مصنوعات مارکیٹ کا مقابلہ نہ کرسکی اور مال اسٹاک ہونا شروع ہوگیا۔ جس میں سے اسٹیل مل اپنی Liability دینے سے قاصرہوگیا۔ نیچرل گیس کمپنی جوکہ حکومتی ادارہ ہے اس کی 16ارب روپے کی Liability ادا نہ کرنے کی وجہ سے اسٹیل مل کو دی جانے والی گیس کا پریشرکم کردیاگیا۔اب یہ 16 ارب روپے سود کی وجہ سے 52 ارب سے زیادہ ہو چکے ہیں۔

گیس پریشر کم ہونے سے پاکستان اسٹیل کے تمام پیدواری یونٹس بند کردیے گئے۔  گیس پریشر کو کم ہوئے آٹھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن حکومت کی مجرمانہ خاموشی اس حقیقت کی واضع دلیل ہے کہ وہ پاکستان کی سب سے بڑی اسٹیل انڈسٹری کو بند کرکے اس کی نجکاری کرنا چاہتی ہے۔ اس ساری صورت حال کا خمیازہ پاکستان اسٹیل کے 18 ہزار ملازمین بھگت رہے ہیں۔ حکومت نجکاری کمیشن کے توسط سے چار ماہ گزرنے کے بعد ایک یا دو ماہ کی تنخواہ ملازمین کو ادا کر رہی ہے۔

وہ بھی ملازمین کے بار بار احتجاج کے بعد یہ تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ موجودہ اسٹیل مل انتظامیہ کی کار کردگی اور بے حسی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتاہے کہ 9  ارب کے اسٹاک شدہ مال کو فروخت کیا گیا اور فروخت شدہ مال میں بھاری کمیشن کھایا گیا۔اس کے علاوہ 26ارب روپے کی کرپشن کے کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ سے ہوئے بھی کئی سال گزر گئے ہیں۔ اب اس کیس کی فائل سرد خانے میں پڑی ہوئی ہے۔ ابھی تک اسٹیل ملز سے لوٹی ہوئی رقم   ریکور نہیں کی گئی جس کی ذمے دار بھی موجودہ گورنمنٹ ہے ۔

پاکستان اسٹیل کی (By Product) جس میں بیٹری کے چلنے سے حاصل ہونے والی امونیا گیس کھادکے کارخانے میں استعمال ہوتی ہے۔ Pitch جو تارکول کے لیے استعمال ہوتا ہے اس کے علاوہ آکسیجن پلانٹ کو اگر تجارتی بنیادوں پر چلایا جائے تو صرف آکسیجن پلانٹ ہی ملازمین کی تنخواہیں نکال سکتا ہے۔ ٹربو تھرمل پاور پلانٹ جس کی دو ٹربائن بیک وقت چلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جن سے 110میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے ایک ٹربائن اسٹینڈ بائی رہتی ہے ۔پاکستان اسٹیل اگر فل Capacity میں اپنی پروڈکشن دے رہی ہو تو 40 سے 50 میگا واٹ بجلی خرچ ہوتی ہے۔ بقایا بجلی (KESC) کو فروخت کی جاسکتی ہے۔

اس سے پہلے پاکستان اسٹیل KESC کو بجلی فروخت کرتا رہا ہے۔ پاکستان اسٹیل کے پاس اپنے اسکول کیڈٹ کالج، گیسٹ ہاؤسز، فروٹ فارمز ہیں۔ ان کو صحیح معنوں میں پروفیشنل منیجمنٹ دی جائے تو یہ اپنے پاؤں پرکھڑے ہو سکتے ہیں لیکن موجودہ گورنمنٹ کی نظریں اسٹیل مل کے ایسڈز پر ہیں۔

وہ ان کو اپنے من پسند افراد کو ٹکڑیوں میں بیچ دینا چاہتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کئی سیاسی جماعتیں جو پی ٹی سی ایل اورکے ای ایس سی کی نجکاری کے حق میں تھیں، جوآج مخالفت کر رہی ہیں ، جیسا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو اسٹیل مل قائم کرنے جا رہے تھے تو ایک مذہبی سیاسی جماعت قومی ملکیت میں اسٹیل مل کے قیام کی بھرپور مخالفت کررہی تھی اور آج نجکا ری کی مخالفت کر رہی ہے۔ یہی حشر وہ PIA کے ساتھ بھی کرنا چاہتی ہے۔

ان حریص سرمایہ داروں کی نظریں صرف اور صرف PIA کے اثاثے جن کی مالیت کھربوں روپے بنتی ہے یہ ان کوکوڑیوں کے بھاؤ میں خریدنا چاہتے ہیں ۔ان کی نظر میں Employee کی اہمیت نہیں IMF نے جب ویلیو ایڈیڈ ٹیکس لگانے کے لیے سابقہ گورنمنٹ پر زور دیا تو حفیظ شیخ نے جب قومی اسمبلی میں بل پیش کیا تمام پارٹیوں کے سرمایہ دار جاگیر طبقے کے لوگ ایک پیج پر آگئے کیونکہ یہ ٹیکس ان کی جائیدادوں پر لگنا تھا، آج تک یہ ٹیکس(Pending) میں ہے۔ عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔

آج گورنمنٹ (IMF) کے دباؤ پر اسٹیل مل PIA سمیٹ 68 اداروں کو نجکاری کی بھینٹ چڑھانا چاہتی ہے اور لاکھوں محنت کشوں کو بے روزگار کر دینا چاہتی ہے۔ اس سے پہلے سابقہ حکومتوں کے ادوار میں مختلف اداروں کی IMF کے دباؤ پر نجکاری کی گئی، ان میں سے بیشتر ادارے جن کی نجکاری کی گئی اور ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کیا گیا وہ ادارے آج تک بند ہیں۔ ان کو پرائیویٹ سیکٹر میں نہیں چلایا جاسکا۔

زبیر رحمٰن 
 

Post a Comment

0 Comments